Maktaba Wahhabi

387 - 462
بکافر‘‘ کا حکم بھی ہے۔ اس حدیث پر بحث کے دوران میں فرمایا کہ ائمہ ثلاثہ امام مالک، شافعی اور احمد رحمہم اللہ کا فتویٰ اسی حدیث کے مطابق ہے۔ مگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مسلمان ذمی کو قتل کر دے تو مسلمان کو اس کے بدلے میں قتل کیا جائے گا۔ علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے امام صاحب کی وکالت کی ہے اور اس پر طویل بحث کے بعد کہا ہے کہ خلاصہ یہ کہ اس کے چار جواب ہیں: 1 حدیث میں کافر سے حربی مراد ہے۔ 2 یہ حدیث دمائے جاہلیت کے خاتمے کے متعلق ہے۔ 3 ذمی کی جان کا حکم وہی ہے جو مسلمان کا ہے۔ 4 فتح مکہ کے خطبے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم اور ذمی کے قصاص کا اعلان فرمایا تھا۔ لیکن اس حدیث کے جواب میں یہ محض تکلف ہے اور چاروں باتیں صحیح نہیں۔ ۱۔ حدیث میں کافر سے حربی مراد لینا نہایت سطحی بات ہے، جب کہ حربی کا خون بالاتفاق مباح ہے۔ نیز یہ تو مفہوم صفت ہے اور علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ مفہوم علمائے احناف کے نزدیک بھی معتبر نہیں۔[1] ۲۔ حدیث کو دمائے جاہلیت ہی پر محمول کرنا دعویٰ بلا دلیل ہے اور تخصیص بلادلیل و برہان جائز نہیں۔ ۳۔ ذمی حقِ نفس میں مسلمان کے قطعاً برابر نہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لَا يَسْتَوِي أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّةِ ﴾ [الحشر: ۲۰] ’’آگ والے اور جنت والے برابر نہیں ہیں۔‘‘ نیز فرمایا:
Flag Counter