Maktaba Wahhabi

398 - 462
بجائی اور آواز دی کہ کون ہے؟ آپ اپنی سادگی پر بھاگ کھڑے ہوئے، مسجد کے قریب پہنچے تھے کہ ایک ٹھوکر سے گر گئے۔ اوپر سے پہرے دار نے آلیا اور معاذ اللہ چور سمجھ کر حوالہ زنداں کروا دیا۔ اس کی اطلاع مدرسہ کی انتظامیہ کو ہوئی تو حقیقتِ حال سے آگاہ کر کے آپ کو چھڑا لائے۔ نمازِ تہجد میں لمبا قیام فرماتے اور قرآن پاک نہایت ’’ترتیل‘‘ سے پڑھتے۔ نماز میں آیاتِ بشارت پڑھتے تو یوں محسوس ہوتا کہ یہ پیغام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل رہا ہے اور آپ اس پر سراپا عجز و نیاز ہو گئے ہیں اور آیاتِ تخویف کی تلاوت فرماتے تو خوف و خطر کا اظہار آواز سے نمایاں ہوتا۔ آواز میں ایسی حلاوت ہوتی اور آیات کی تفہیم کے مطابق ایسا اتار چڑھاؤ ہوتا دل چاہتا کہ آپ پڑھتے ہی چلے جائیں اور رات کی نماز میں تو بالکل کیفیت وہی ہوتی جس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں احادیث پاک میں آیا ہے کہ جیسے ہنڈیا اُبل رہی ہے۔ نماز میں یہ استغراق دراصل فیضان تھا خاندانِ غزنویہ سے شرفِ تلمذ کا۔ رحمہم اللّٰه تعالیٰ أجمعین نماز کے اہتمام کا یہ عالم تھا کہ انہی کی شاگرد رشید حضرت مولانا عطاء اللہ حنیف صاحب رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ کم و بیش پچاس سال تک حضرت کی تکبیرِ اولیٰ فوت نہیں ہوئی۔ (الاعتصام ۲۱ جون ۱۹۸۵ء) فرائض و سنن کے علاوہ مستحبات کا بھی بڑا اہتمام فرماتے۔ جب بھی مسجد میں تشریف لاتے فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق دو رکعت پڑھنے سے پہلے قطعاً نہیں بیٹھتے تھے۔ نمازِ تہجد گھر پر ادا کرنے کے بعد مسجد میں تشریف لے جاتے اور موذن کو بروقت اذان کہنے کا حکم فرماتے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد چار زانو ہو کر نہایت اطمینان سے جم کر بیٹھ جاتے اور اَوراد و وظائفِ مسنونہ میں مشغول رہتے۔ طلوعِ آفتاب کے بعد چاشت کی نماز پڑھ کر گھر تشریف لے جاتے،
Flag Counter