Maktaba Wahhabi

399 - 462
اسی طرح مغرب کی نماز کے بعد بھی نوافل کا اہتمام تھا۔ اخی فی اللہ مولانا شہباز احمد سلفی صاحب کا بیان ہے کہ ایک بار نماز سے پہلے ایک سائل آیا اور عرض گزار ہوا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ شہر کے بہت بڑے عالم ہیں۔ آپ میری اعانت فرمائیے۔ آپ نے اس کی امداد کرنے کے بعد فرمایا: بھائی آپ کو کسی نے غلط کہا ہے بڑے عالم تو مولانا محمد اسماعیل سلفی ہیں، جو بڑی مسجد کے خطیب ہیں، میں تو ایک طالب علم ہوں، چھوٹی سی مسجد کا امام ہوں۔ وہ صاحب تو چلے گئے۔ مگر اس کے بعد حضرت حافظ صاحب کا یہ عالَم تھا کہ سراپا عجز و نیاز رہے۔ نماز کا وقت ہوا تو پوری نماز روتے ہوئے پڑھائی۔ اللہ اللہ! کیا شان تھی عجز و انکساری اور تواضع کی۔ حضرت حافظ صاحب کو قرآن پاک سے جو لگاؤ اور محبت تھی اس کا اندازہ آپ اس ایک واقعہ سے کر سکتے ہیں جس کا اظہار مجھ سے محترم مولانا صوفی محمد اکبر صاحب نے فرمایا کہ ۱۹۸۴ء میں حضرت کی طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب ہو گئی تو گوجرانوالہ ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔ رمضان المبارک کا مہینا تھا، ڈاکٹر نے روزے رکھنے سے روک دیا۔ شدید بیماری کے ایام میں آپ ذکر و اذکار اور تلاوتِ قرآنِ پاک میں مصروف رہتے۔ رمضان المبارک کے بعد بڑی حسرت اور افسوس سے فرمایا کہ امسال روزے چھوٹ گئے، مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ تیس مرتبہ قرآن پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرما دی۔ گویا روزانہ ایک قرآن پاک ختم کرتے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلقِ خاطر ہی کا نتیجہ تھا کہ مرض الموت میں جن دنوں آپ لاہور میو ہسپتال میں داخل تھے۔ زبان اور دل اللہ تعالیٰ کی یاد میں مصروف رہتے۔ ملنے والوں میں اگر کوئی صحت کا حال دریافت کرتا تو مختصر جواب دے کر پھر ذکر و اذکار میں مصروف ہو جاتے۔ حضرت
Flag Counter