Maktaba Wahhabi

411 - 462
سیکھنے کے لیے وہاں گئے تھے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کا عملی ذوق کیا تھا اور طریقۂ تعلیم کیسا تھا۔ تخریجِ حدیث ان کا خاص موضوع تھا اور احادیث کو تلاش کرنے میں انھیں خاص ملکہ حاصل تھا۔ دورانِ تعلیم میں نے دیکھا کہ مشکاۃ المصابیح سے حدیث نکالنے میں انھوں نے اس کی فہرستِ ابواب کی شاذ و نادر ہی ضرورت محسوس کی، جب بھی اس کی ضرورت محسوس ہوئی بسم اللہ پڑھ کر مشکاۃ شریف کو اٹھایا، ایک اندازہ سے کھولا، ایک دو ورق اِدھر سے اُدھر کیے اور فرمایا: لیجیے حدیث یہ ہے، بلکہ اکثر و بیشتر صحاح ستہ سے روایت نکالنے کا بھی یہی انداز تھا، البتہ مسند امام احمد اور موطا وغیرہ کی احادیث کے لیے آپ ’’مفتاح کنوز السنۃ‘‘ سے مدد لیتے۔ حدیث میں ان کی معلومات ہی کا نتیجہ تھا کہ مختلف علمائے کرام اس سلسلے میں آپ سے رجوع کرتے۔ حضرت مولانا محمد عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ کو آپ سے دیرینہ تعلق تھا، وہ بھی کئی بار روایات کی تلاش میں آپ کو لکھتے۔ چنانچہ ایسے ہی ایک مکتوب میں انھوں نے ’’إن أھل نجد أخبروا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم أن رؤیتھم تقدم رؤیۃ أھل المدینۃ بیوم فقال لأھل کل بلد رؤیتھم‘‘ نیز ’’کان یکرہ التصنع کلہ‘‘ اور ’’کان صوت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یبلغ ما لا یبلغ صوت غیرہ‘‘ کے بارے میں استفسار کیا، اس کا انھوں نے کیا جواب دیا، اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ یادش بخیر: فیصل آباد کے مولانا محمد انور کلیم صاحب دیوبندی علما میں اپنی سنجیدگی، متانت و شرافت میں جانے پہچانے عالمِ دین ہیں، وہ اکثر و بیشتر حضرت مولانا رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ ’’مفتاح کنوز السنۃ‘‘ کی مدد سے احادیث
Flag Counter