Maktaba Wahhabi

414 - 462
مطابق دو مرتبہ حافظ صاحب مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوئے مگر سارا دن ان کے اپنے مشاغل میں بیت جاتا۔ جس کام کے لیے ہم جاتے، اس کی طرف توجہ ہی نہ دے سکے۔ جس کے بعد میں نے جانا موقوف کر دیا اور یوں یہ بنا بنایا پروگرام دھرے کا دھرا رہ گیا۔ آپ کے علم و فضل ہی کا نتیجہ تھا کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے آپ کو اپنے منبر پر خطبہ جمعہ دینے کا فرمایا۔ مولانا مرحوم نے بتلایا کہ پاکستان بننے سے پہلے ایک مرتبہ جمعہ کے روز مجھے امرتسر جانے کا اتفاق ہوا، میں نے چاہا کہ آج جمعہ حضرت مولانا امرتسری کے ہاں پڑھوں گا، چنانچہ میں بروقت ان کی خدمت میں پہنچ گیا۔ مجھے دیکھ کر انھوں نے فرمایا: مولوی عبداللہ آج جمعہ آپ پڑھائیں گے۔ میں نے انکار کیا، مگر میرے انکار پر ان کا اصرار غالب آیا تو مجھے جمعہ پڑھانا پڑا۔ جب میں خطبے کے لیے منبر پر بیٹھا تو چپکے سے حضرت مولانا امرتسری بھی منبر کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ میں نے توحید کے عنوان پر خطبہ دیا، دورانِ خطبہ میں نے ذکر کیا کہ حجِ بیت اللہ کے لیے میں جب حاضر ہوا تو وہاں امامِ حرم شیخ حمید سے بھی ملاقات ہوئی، اسی مجلس میں حضرت مولانا حافظ محمد عبداللہ محدث روپڑی بھی تشریف فرما تھے۔ محدث روپڑی کا نام سن کر مولانا امرتسری نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور پھر سر جھکا لیا۔ میں نے ذکر کیا کہ اسی مجلس میں شیخ حمید نے مولانا روپڑی سے پوچھا کہ آپ غارِ حرا میں بھی تشریف لے گئے ہیں؟ تو انھوں نے اثبات میں جواب دیا، جس پر شیخ حمید نے فرمایا: ’’ فأین التوحید؟‘‘ یہ جملہ سن کر مولانا امرتسری بھی مسکرا پڑے۔ بہت کم حضرات کے علم میں ہے کہ حضرت مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی مرحوم کی
Flag Counter