Maktaba Wahhabi

426 - 462
آپ کو چاند سا بیٹا عطا فرمائیں گے، اس کا نام عبدالرحمان رکھنا، لیکن میں نے واپس نہیں آنا، مولانا کو دراصل اپنے چھوٹے بیٹے سے کبیدگی تھی۔ وہ اسی عزم سے گئے تھے کہ اب میں یہاں نہیں آؤں گا، میرا اللہ نگہبان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بشرطِ واپسی حضرت مولانا عبدالرحمان صاحب امام جماعت غربائے اہلِ حدیث سے وعدہ کر لیا تھا کہ آیندہ چھے ماہ فیصل آباد ادارہ علومِ اثریہ میں اور چھے ماہ جامعہ ستاریہ کراچی میں درسِ حدیث دوں گا۔ مگر کسے معلوم تھا کہ آیندہ تعلیمی سال شروع ہونے سے پہلے ہی آپ اپنے خالقِ حقیقی کے پاس پہنچ جائیں گے۔ ادارہ علومِ اثریہ کا آغاز ہوا تو اس کا پہلا سال بڑا کسمپرسی کے عالم میں گزرا۔ باورچی ہے تو پکانے کے لیے تمام ضروریات موجود نہیں۔ ان ایام میں مولانا خود کبھی کبھار آتے جاتے بعض اہلِ محلہ سے خور و نوش کی اشیا اٹھا کر لے آتے۔ کھانے کا وقت ہوتا تو تنور سے روٹی لے آتے اور ہمارے ہمراہ بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے اور اس میں کسی قسم کی عار محسوس نہ کرتے اور کبھی نام و نمود کی خواہش نہ کی۔ ساری زندگی فقیری اور درویشی میں گزری۔ تصنع اور تکلف سے ان کی زندگی یکسر خالی تھی۔ وہ بعض جلسوں میں میرِ مجلس ہوتے۔ مدارس میں سال کے اختتام پر مختلف مقامات پر بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دیتے۔ ماموں کانجن کانفرنس کی صدارت ہو یا صبح کا درس یا مرحوم صدرِ پاکستان ضیاء الحق کی مشایخ کانفرنس ہو، ہر جگہ اپنی فقیرانہ سج دھج قائم رکھتے اور کسی بھی جگہ کرّوفر کا مظاہرہ نہ کرتے۔ تصنع اور بناوٹ نام کا لفظ ان کی لغت سے خارج تھا۔ ہمیں ایک بار فرمایا کہ تم سعودیہ عربیہ میں خط لکھتے ہو، مگر واپسی پتہ کبھی ’’جھال خانوآنہ‘‘ نہ لکھنا، بلکہ اس کے بجائے ستیانہ روڈ لکھنا، کیوں کہ عربی لوگ جَھال کو ’’جھّال‘‘ پڑھیں گے۔ انھیں کیا معلوم کہ جَھال کیا ہوتی ہے۔
Flag Counter