Maktaba Wahhabi

446 - 462
ہیں، مگر ۳۷ ؍ ۳۸ سال قبل کی ویرانی کسے یاد ہے، جب ادھر جاتے ہوئے لوگ راستہ بھول جاتے تھے؟ ان حالات میں الجامعہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والوں میں چیمہ مرحوم بھی شامل تھے۔ الجامعہ کے تعارف میں ان کی کوششوں کا اندازہ آپ اس واقعے سے لگائیے، جسے ایک مرتبہ خود مولانا مرحوم نے بیان فرمایا کہ جامعہ جانا ہوتا تو تانگوں کے اڈے پر تانگے والے سے پوچھتا کہ جامعہ چلنا ہے؟ اس دور میں رکشوں کا تصور بھی نہ تھا۔ وہ ناواقف ہوتا، میں اس کا محلِ وقوع بتلاتا، پھر وہ چار آنے کرایہ طلب کرتا، میں آگے سے دو آنے دینے کا اظہار کرتا، پھر ¼۲ آنے، بالآخر تین آنے تک بات ہوتی، تانگہ بان نہ مانتا تو دوسرے تانگے والے سے بات کرتا، یوں تین، چار تانگے والوں سے بات ہوتی اور اس کا مقصد صرف یہ ہوتا تھا کہ سواری اٹھانے والوں کو جامعہ متعارف کرایا جائے، تاکہ باہر سے آنے والا کوئی اگر جامعہ کا نام لے تو تانگے والے جامعہ کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کر کے آنے والے کے لیے پریشانی کا موجب نہ بنیں۔ یہ راقم ۱۹۶۴ء میں الجامعۃ السلفیہ حاضر ہوا، مولانا چیمہ مرحوم جامعہ کے انتظام و انصرام سے لاتعلق ہو چکے تھے، مگر پھر بھی میں نے یہاں اساتذہ کرام اور طلبا سے دو باتوں کا تذکرہ بتکرار سنا، ایک استاذ الاساتذہ حضرت محدث گوندلوی رحمہ اللہ کا طریقۂ درس بالخصوص یہ کہ دس گیارہ ماہ تک مسلسل حضرت موصوف نے سورئہ فاتحہ کا درس دیا، جس سے طلبا کے بجائے اساتذہ زیادہ مستفید ہوتے اور دوسری بات حضرت چیمہ مرحوم کے انتظام و انصرام اور جامعہ کی خدمات کا، یہاں تک کہ باہر سے گندم آتی تو خود مولانا مرحوم ایک کے بجائے دو دو بوریاں اپنی کمر پر رکھوا کر سٹور میں رکھتے۔ سچی بات ہے کہ ایک قائد اور منتظم کا اس قسم کے کام میں خود پہل کرنا اس کے
Flag Counter