Maktaba Wahhabi

447 - 462
اخلاص کی دلیل ہوتا ہے اور یوں رفقائے کار بھی اس میں کسی قسم کی پس و پیش کا شکار نہیں ہوتے۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ بھی یہی ہے، غزوۂ احزاب میں آپ کا عمل قائدین حضرات کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ قائدین اگر مٹی کے مادھو نہ بنیں تو خدام خون و پسینہ نچھاور کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ حضرت چیمہ مرحوم انہی قائدانہ صلاحیتوں کے مالک تھے، دین و مسلک کے لیے اور جامعہ و جماعت کے لیے کسی کام کو بدستِ خود کرنے میں کبھی کوئی حجاب یا عار محسوس نہیں کرتے تھے، اللہ تعالیٰ ان کی مساعی کو قبول فرمائے۔ آمین الجامعۃ السلفیہ کی تعمیر سے پہلے جون ۱۹۵۶ء میں اس کا آغاز جامع مسجد اہلِ حدیث امین پور بازار میں ہوا تو اس کے ابتدائی تین اساتذۂ کرام میں ایک مولانا چیمہ مرحوم بھی تھے۔ الجامعہ تعمیر ہوا تو اس کے پہلے مہتمم یا مدیرِ تعلیم مولانا چیمہ مقرر ہوئے اور انھیں اس خدمت کے لیے مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی مجلسِ عاملہ نے منتخب کیاتھا۔ کچھ عرصہ کے لیے حضرت مولانا محمد صدیق رحمہ اللہ خطیب جامع مسجد امین پور بازار کو بھی الجامعہ کا ناظم مقرر کیا گیا، مگر ۱۹۵۸ء میں مولانا چیمہ مرحوم کو دوبارہ الجامعہ کا نظم و نسق سونپ دیا گیا۔ نظامت کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ جز وقتی تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔ انہی کے دورِ نظامت کے حوالے سے اس ناکارہ کو مولانا مفتی عبیداللہ خان عفیف حفظہ اللہ نے بتلایا کہ ایک رات بارش ہوئی، رات کا کافی حصہ بیت چکا تھا، تقریباً ڈیڑھ، دو بجے کا وقت ہو گا، میں لالٹین کی روشنی میں مطالعہ کر رہا تھا، اسی دوران میں مولانا چیمہ شہر سے اپنی سائیکل پر تشریف لائے اور مجھے فرمایا: تم ابھی تک مطالعہ کر رہے ہو؟ اندازہ کیجیے جس دور میں دن کے وقت الجامعہ میں آمد و رفت مشکل ہو، اس
Flag Counter