Maktaba Wahhabi

449 - 462
مگر اس میں ایک قانونی رکاوٹ یہ تھی کہ ابھی تک امام دین کے ورثا کی طرف سے زمین کا جامعہ کے نام انتقال کا مرحلہ باقی تھا۔ چنانچہ ہمارے ممدوح مولانا چیمہ مرحوم فضل حق والہ میں حکیم محمد صدیق صاحب سے ملے، بعض رشتہ داروں نے بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کی مگر حکیم صاحب نے ذمہ داری قبول کی کہ ہم چار بھائی، چار بہنیں اور والدہ اس کے انتقال پر متفق ہیں۔ ۳، ۴ اپریل اتوار، سوموار ۱۹۵۵ء میں لائل پور میں مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کانفرنس منعقد ہوئی، مولانا چیمہ مرحوم سے حکیم محمد صدیق صاحب نے کہا کہ ۴ اپریل کو ہم اپنی والدہ اور بھائی بہنوں کے ہمراہ کچہریوں میں آکے یہ قضیہ نپٹا دیں گے۔ چنانچہ حکیم صاحب نے پہلے تمام کی طرف سے اپنے نام مختار نامہ عام حاصل کیا اور دوسرے لمحے میں اس زمین کو الجامعۃ السلفیہ کے نام منتقل کر دیا گیا۔ ادھر اسی روز عصر کی نماز کے بعد الجامعۃ السلفیہ کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ حکیم صاحب بھی اس موقع پر موجود تھے۔ یہ ساری تفصیلات انھوں نے بیان فرمائیں۔ ’’برصغیر میں اہلِ حدیث کی سرگزشت‘‘ (ص: ۱۹۳) میں مولانا محمد اسحاق بھٹی مرحوم نے جو لکھا ہے کہ دو بھائیوں نے ۱۹۵۴ء میں پونے دو ایکڑ زمین وقف کی، حکیم صاحب کے اس بیان کی روشنی میں درست نہیں ہے۔ زمین امام الدین مرحوم نے وقف کی تھی اور دوسرے بھائی کا نام کریم بخش نہیں بلکہ رحیم بخش تھا۔ امام الدین تو ۱۹۴۲ء میں انتقال فرما گئے تھے۔ جامعہ کے انتظام و انصرام کے ساتھ ساتھ آپ نے سلسلۂ تعلیم و تعلم بھی ایک حد تک جاری رکھا، جب کبھی کوئی استاذ صاحب رخصت پر ہوتے تو اس کی کلاس کو لے کر بیٹھ جاتے، تاکہ طلبا کا نقصان نہ ہو۔ جامعہ سلفیہ کے علاوہ ایک عرصے تک آپ نے جامعہ تعلیمات اسلامیہ میں
Flag Counter