Maktaba Wahhabi

452 - 462
اینٹ بجا دی جائے گی۔ اس اعلان کے بعد پنجاب پولیس کی آنکھیں کھل گئیں، چنانچہ انتظامیہ کے اس وعدے پر کہ کل شام تک حضرات علمائے کرام لائل پور پہنچ جائیں گے۔ حسبِ وعدہ اگلے روز بذریعہ شاہین ایکسپریس اس قافلے کو لائل پور پہنچا دیا گیا۔ مجلسِ عمل کو اس کی خبر پہلے مل چکی تھی، شہر میں ان کی آمد کا اعلان ہوا تو جمِ غفیر اپنے قائدین کے استقبال کے لیے اسٹیشن پر پہنچا اور پوری فضا ’’ختمِ نبوت زندہ باد، علمائے کرام زندہ باد‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھی۔ مولانا مرحوم پیپلز پارٹی اور اس کی ہنگامہ پرور سیاست کے ہمیشہ مخالف رہے، ہر الیکشن کے موقع پر اس کی مخالفت کی۔ ۱۹۷۰ء میں جب پہلی بار خم ٹھونک کر پیپلز پارٹی میدانِ عمل میں آئی تو ان کی غریب پروری کا طلسم توڑنے کے لیے ایک بڑا اشتہار غالباً ’’پیپلز پارٹی کے غرباء‘‘ کے نام سے ادارۃ العلوم الاثریہ نے ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر ملک بھر میں پھیلایا۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے مولانا مفتی محمود مرحوم کے مقابلے میں بھی جب بھٹو صاحب نے انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تو وہاں کے حلقے میں دیوبندی حضرات نے سیکڑوں کی تعداد میں یہ اشتہار منگوائے اور حلقہ بھر میں لگوائے۔ بھٹو صاحب کا یہی اقدام دراصل حضرت مفتی صاحب اور بھٹو کے مابین نزاع کا باعث بنا، ورنہ کسے معلوم نہیں کہ اوائل میں مفتی صاحب کا بھٹو اور ان کی پیپلز پارٹی سے کوئی زیادہ اختلاف نہیں تھا۔ مولانا غلام غوث ہزاروی بھی اسی موضوع پر بولتے، لاہور کا ’’ترجمان الاسلام‘‘ جو ہزاروی صاحب کی زیرِ ادارت نکلتا تھا، اسلام کا نہیں، پیپلز پارٹی اور سوشلزم کا ترجمان محسوس ہوتا تھا۔ جمعیت علمائے اسلام نفاذِ اسلام کے موقف کو چھوڑ کر سوشلسٹوں سے گٹھ جوڑ کر رہی تھی۔ پاکستان کے مقتدر اہلِ علم کے ایک سو
Flag Counter