Maktaba Wahhabi

416 - 462
بلکہ صراحتاً لکھا تھا کہ سیرت کے مضمون کے لیے اس بحث کی ضرورت نہیں، لیکن مولانا سیالکوٹی نے کسی مصلحت سے اس کو طول دینا ہی مناسب سمجھا۔ آخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا کہ بعض احباب نے مجھ پر آوازے کسے اور بعض نے مداہن کہنا شروع کیا۔ اس لیے فریقِ ثانی کے خیالات بھی درج کرنے لازم ہو گئے۔ تاہم میں اس بحث کو طول نہیں دوں گا۔ پس فریقین کے خیالات اور مقالات کا شائع ہو جانا کافی ہے۔‘‘ مولانا امرتسری رحمہ اللہ کے یہ الفاظ بھی اس بات کے غماز ہیں کہ مولانا مرحوم نے اپنے مضمون میں جمہور کی ترجمانی باحسن انداز کر دی اور اسی کو انھوں نے کافی و شافی سمجھا۔ وللّٰه درھم! حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی نور اللہ مرقدہ نے مئی ۱۹۴۹ء میں لاہور کے ایک ماہنامے ’’اسلامی زندگی‘‘ میں منکرینِ حدیث کی تردید میں ’’ظن کے اصطلاحی معنی‘‘ کے عنوان پر ایک مضمون لکھا تو علامہ تمنا عمادی نے لاہور کے ایک اور ماہنامے ’’البیان‘‘ میں اس کو ہدف بحث بنایا اور اس کے بعض مباحث پر تنقید کی، جس کا جواب حضرت سلفی مرحوم نے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کے چھے شماروں میں دیا، جس کا عنوان تھا: ’’مولانا تمنا کے تنقیدی مضمون کا علمی محاسبہ‘‘ جو مارچ ۱۹۵۰ء کے شماروں میں شائع ہوا۔ ہمارے شیخ مولانا محمد عبداللہ مرحوم نے بھی علامہ تمنا عمادی کے مضمون پر گرفت کی اور علمی انداز میں تمنا صاحب کے افکار کا تجزیہ کیا جو ’’الاعتصام‘‘ کی ۲۱ اور ۲۸؍ اپریل ۱۹۵۰ء کی دو اشاعتوں میں ’’مولانا تمنا کے مضمون پر ایک اور تعاقب، رجالِ حدیث سے متعلق ایک مفید بحث‘‘ کے عنوان پر شائع ہوا۔ علامہ محمد انور شاہ کشمیری صاحب سے سبھی اہلِ علم واقف ہیں۔ ’’فیض الباری‘‘
Flag Counter