Maktaba Wahhabi

142 - 702
امت سے انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ اور ان کا یہ جداگانہ اور انفرادی قول خطاء ہوتا ہے۔ برخلاف ان لوگوں کے جو حدیث اور سنت کی طرف نسبت و اضافت رکھتے ہیں ۔ بیشک حق اور صواب ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور جو کوئی ان سے موافقت رکھتا ہو؛ حق ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتا ہے؛ کیونکہ یہ لوگ کتاب و سنت کے موافق ہوتے ہیں ۔ اور اگر کوئی ان کی مخالفت بھی کرے ؛ تو حق تمام امورِدین میں ان ہی کے ساتھ ہوتا ہے؛ کیونکہ اصل میں حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے۔تو پھر جو کوئی سنت کا جتنا بڑا عالم اور متبع ہوگا؛ توحق اور صواب بھی اسی کے ساتھ ہوگا۔ ٭ یہ وہ لوگ ہیں جو صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی نصرت کرتے ہیں ۔ اور اس قول کو صرف انہی کی طرف ہی منسوب کرتے ہیں ۔ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے عالم اور اس کی اتباع کرنے والے ہیں ۔ اکثر سلف امت کا یہی حال تھا۔ لیکن متأخرین میں بہت زیادہ تفرقہ اور اختلاف واقع ہوا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس امت میں جن لوگوں کی قدر بلند کی ہے؛ اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کیااور اس کی نصرت کی ۔ یہی حال امت کے سارے گروہوں کا ہے۔ بلکہ مخلوق میں سبھی طوائف کا ہے۔ ان کے پاس جو بھی خیر و بھلائی ہے؛ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولوں کا لایا ہوا پیغام ہے۔ او رجو کچھ ان کے ہاں خطاء او رگناہ پائے جاتے ہیں ؛ وہ رسولوں کی طرف سے نہیں ہیں ۔ ٭ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب کسی مسئلہ میں اپنے اجتہاد سے گفتگو کرتے ؛ تو ان میں سے کوئی ایک کہتا : یہ بات میں اپنی رائے سے کہہ رہا ہوں ۔ اگریہ درست ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے؛ او راگر خطاء ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے؛ اللہ اور اس کا رسول اس سے بری ہیں ۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کلالہ کے مسئلہ میں فرمایا تھا۔ اور جیسے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مفوَّضہ کے بارے میں فرمایا تھا ؛ جب اس کا شوہر فوت ہو جائے۔ اور ان دونوں حضرات نے جو بات اپنی رائے سے فرمائی ؛ اس میں حق اور صواب پر رہے۔ لیکن انہوں نے جو کچھ فرمایا ہے؛ وہ بھی حق ہے۔ یعنی بیشک اگر بات درست ہو تو پھر یہ وہی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں ؛ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی۔ اور اگراس میں کوئی خطاء ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو خطاء کے مبعوث نہیں فرمایا۔ یہ ان کی اپنی رائے اور شیطانی حیلہ ہے۔ اللہ اوررسول سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ ٭ آپ کی طرف منسوب کرنے سے مقصود اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی طرف ہونا ہے۔یعنی حکم اور شریعت اور دین۔اوریہ کہ اللہ تعالیٰ اسے چاہتے اور پسند کرتے ہیں ؛ اور اس کام کے کرنے والے کو ثواب سے نوازتے ہیں ۔یا پھر اگرمخلوق کی جہت سے نسبت مراد ہو؛ تو پھر تمام چیزیں اسی کی طرف سے ہیں ۔لوگوں نے حضرات صحابہ سے اس بارے میں سوال نہیں کیا کہ جو اللہ تعالیٰ نے تخلیق و تقدیر میں ان پر احسان کیا ہے۔ انہیں علم تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے ؛ وہ اسی کی طرف سے ہے۔ عرب عہد جاہلیت میں بھی قضاء و قدر پر ایمان رکھتے تھے۔ ابن قتیبہ اور دیگر حضرات کہتے
Flag Counter