Maktaba Wahhabi

376 - 702
مطابق کیا کرتے تھے؛ یا اس کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے ؛ اور اس پر ان کی مدح بھی کرتا ہے یا تو وہ بہت بڑا جاہل ہے اور یا زندیق و ملحد ہے کہ اس مدح کے پردے میں آپ پر جرح و قدح وارد کرنے کا خواہاں ہے۔ اس لیے کہ یہ بات مدح و ثواب کی موجب نہیں ، بلکہ ذم و عقاب کا باعث ہے۔ فصل:....فضائل ِحضرت علی رضی اللہ عنہ پر رافضی کے کلام پر تبصرہ شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’ محدث بیہقی اپنی سند کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص حضرت آدم علیہ السلام کا علم، نوح علیہ السلام کا تقویٰ، ابراہیم علیہ السلام کا حلم، موسیٰ علیہ السلام کا رعب و دبدبہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طاعت و عبادت کو دیکھنا چاہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء سابقہ کے متفرق خصائل کو صرف ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے ثابت کردیا ہے۔ ‘‘[رافضی کا دعوی ختم ہوا]۔ ٭ پہلا جواب : ہم کہتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے، اگر شیعہ اپنے دعوی میں سچے ہیں تو اس کی سند ذکر کریں ۔ امام بیہقی فضائل میں ضعیف تو کیا موضوع احادیث تک بیان کردیتے ہیں ۔جس طرح ان جیسے دوسرے اہل علم نے بھی کیا ہے ۔ ٭ دوسرا جواب: یہ حدیث محدثین کے نزدیک بلاشبہ کذب و موضوع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فضائل علی رضی اللہ عنہ کی احادیث کے حریص ہونے کے باوجودامام نسائی رحمہ اللہ جیسے محدثین نے بھی اسے ذکر نہیں کیا۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الخصائص میں فضائل علی رضی اللہ عنہ سے متعلق روایات کو جمع کردیا ہے ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی متعدد احادیث آپ کے فضائل میں ذکر کی ہیں جن میں سے بعض ضعیف بلکہ موضوع بھی ہیں ۔ مگر یہ حدیث کسی نے بھی ذکر نہیں کی۔ فصل:....علم علی رضی اللہ عنہ اور من گھڑت روایت [کج فہمي]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ابو عمرزاہد [1]کاقول ہے کہ: ابو العباس نے کہا: ہمیں حضرت شیث علیہ السلام سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک کوئی نبی ایسا معلوم نہیں جس نے یہ الفاظ کہے ہوں کہ ’’ جو پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ لو۔‘‘ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے ۔ اکابر صحابہ مثلاً ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما آپ سے مسائل دریافت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ سوالات کا سلسلہ رک گیا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ اے کمیل بن زیاد! میری ذات میں علم کی فراوانی ہے، اے کاش! اس علم کا کوئی حامل ہوتا۔‘‘ [جواب]: اگر اس روایت کی نقل ثعلب سے درست بھی ثابت ہو جائے ؛تو یہ بے سند ہونے کی وجہ سے قابل احتجاج نہیں ۔ ثعلب ان ائمہ حدیث میں سے نہیں ہے جنہیں صحیح وسقیم روایات کا علم ہوتاہے؛ تاکہ یہ کہنا بجا ہوتا کہ یہ روایت ثعلب
Flag Counter