Maktaba Wahhabi

550 - 702
جب کہ محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کے ہاں یہ مقام حاصل نہیں ۔ انہوں نے ذوالقعدہ سے لیکر ربیع الاول کے شروع تک کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے صرف چند ماہ پائے ہیں ۔اس لیے کہ آپ کی پیدائش حجۃ الوداع والے سال ذوالقعدہ کے مہینے میں ذوالحلیفہ کے مقام پر ہوئی۔ جب کہ مروان کا شمار حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے ہم پلہ و معاصرین میں سے ہوتا ہے ۔انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو پایا ہے ۔ او ر ممکن ہے کہ فتح مکہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا بھی ہو ؛ یا پھر حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو۔اور جن لوگوں کا کہنا ہے :آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا اس لیے کہ آپ اپنے والد کے ساتھ طائف میں تھے۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو ان کے والد طائف میں ہی تھے۔ اور آپ بھی اپنے والد کے ساتھ ہی تھے۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد کو طائف کی طرف جلا وطن کر دیا تھا۔ بہت سارے اہل علم اس کا انکار کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے طائف گئے تھے۔آپ کو جلا وطن کرنے کی کوئی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔ یہ فتح مکہ کے بعد کی بات ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر ان کے والد سارے آزاد کردہ لوگوں کے ساتھ مکہ میں موجود تھے۔ اور اس وقت مروان کی عمر حد ِ تمیز[بلوغت کے قریب] کو پہنچ چکی تھی۔اس بنا پر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کے والد نے جب لوگوں کے ساتھ حج کیا تو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار بھی کیا ہو۔اور یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ آپ مدینہ آئے ہوں ‘اور وہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو۔ الغرض شرف دیدار کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ جب کہ آپ کے معاصر حضرت عبد اللہ بن زبیر ؛ حضرت مسور بن مخرمہ؛ یہ لوگ مدینہ میں موجود تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کاسماع ثابت ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور شام کی ولایت : [اعتراض]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ :’’ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا معاملہ تویہ ہے کہ حضرت عثمان نے ان کو والی شام مقرر کیا اور آپ نے وہاں پر نئے نئے فتنے پیدا کیے۔‘‘ [جواب]: معاویہ رضی اللہ عنہ کو حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس وقت اس منصب پر تعینات کیا تھا جب ان کے بھائی یزید بن ابو سفیان رضی اللہ عنہماکا انتقال ہوگیا۔بھائی کی جگہ یہ منصب آپ کو تفویض کیا۔اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں آپ اسی منصب پر قائم رہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ کی ولایت میں وسعت دیدی تھی۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیرت اپنی رعایا کے ساتھ تمام والیوں سے زیادہ بہتر تھے ۔ لوگ آپ کو ٹوٹ کر چاہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن کو تم چاہتے ہو اور جو تمہیں چاہتے ہوں تم ان کے حق میں دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے حق میں ، تمہارے بد ترین حکام وہ ہیں جن سے تم بغض رکھتے ہو اور جو تم سے بغض رکھتے ہوں ، جن پر تم لعنت بھیجتے ہو اور جو تم پر لعنت بھیجتے ہوں ۔‘‘[اس کی تخریج گزر چکی ہے ] حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حوادثات اور فتنے اس وقت ظہور پذیر ہوئے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو
Flag Counter