Maktaba Wahhabi

552 - 702
یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کے نام سے ایک جھوٹا خط لکھ لیا گیا تھا؛ جس میں ان لوگوں کے قتل کا حکم دیا گیا تھا۔اور انہوں نے یہ خط راستہ میں پایا ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس خط کابھر پور انکار کیا تھا۔آپ اپنے قول میں بالکل سچے تھے۔ پھر انہوں نے اس کا الزام مروان پر لگایا ؛ اور آپ سے مطالبہ کیا کہ مروان کو ان کے حوالہ کیا جائے تاکہ وہ اسے قتل کرسکیں ۔لیکن آپ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اگر مان لیا جائے کہ بات صحیح بھی ہے ؛ توپھر بھی جوکچھ ان لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا ؛ وہ اس بات کی بنا پر مباح یا جائز نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کی زیادہ سے زیادہ حد یہ ہوسکتی ہے کہ مروان ان لوگوں کو قتل کروانے کے اپنے ارادہ میں گنہگار ہو۔ لیکن اس کی مراد پوری نہ ہوسکی۔جو کوئی کسی انسان کو قتل کرنے کی کوشش کرے ؛ مگر اسے قتل نہ کرے؛ تو صرف اس کوشش کی وجہ سے اس کو قتل کرنا واجب نہیں ہوجاتا ۔ پس ایسے معمولی سے مسئلہ کی بنا پر مروان کو قتل کرنا واجب نہیں ہوگیا تھا۔ ہاں ایسے لوگوں سے بچنا ضروری تھا جو اس قسم کی حرکات کرتے ہوں ۔اور ان لوگوں کوان کے مناصب سے سبکدوش کرکے ادب سکھانا چاہیے تھا۔ لیکن قتل کرنا یہ بہت ہی خطرناک معاملہ ہے ۔ [أقرباء پروری کی حقیقت کیا ہے؟]: [اعتراض]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ :’’ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیت المال سے اپنے اقارب کو بہت زیادہ نوازتے رہتے ؛ اور انہیں دوسرے لوگوں پر ترجیح دیتے تھے۔ قریش میں سے ان کے چار داماد تھے، ان کو چار لاکھ دینار عطا کیے۔ مروان کو دس لاکھ دینار دیئے۔‘‘ [جواب]:پہلی بات : اس واقعہ کی نقل کہاں ثابت ہے ؟اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ اپنے اقارب کو بھی بیت المال میں سے ایسے ہی دیا کرتے تھے جیسے دوسرے لوگوں کو دیا کرتے تھے۔آپ تمام مسلمانوں کے ساتھ احسان کرنے والے تھے۔ لیکن جس صورت میں یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے اس کو صحیح ثابت کرنا بھی چاہیے ۔ [یہ محض جھوٹ ہے ]۔ دوسری بات:....یہ تو ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔نہ ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور نہ ہی خلفاء راشدین میں سے کسی دوسرے خلیفہ نے اپنے اقارب کو اس قدر مال دیا۔یہ بات سبھی کومعلوم ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ لوگوں کی تألیف قلب کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ دیا کرتے تھے۔مگر اس کے باوجو د آپ نے تیس لاکھ درہم دیئے۔ اور کہا جاتا ہے کہ اتنی بڑی رقم کبھی کسی کو نہیں دی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے بعض اقارب کو دیا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے آپ پر انکار بھی کیا گیا۔ مگر اس کی تأویل پہلے گزر چکی ہے کہ آپ ایسا کیوں کرتے تھے۔جبکہ اس بارے میں عام جواب آگے آئے گا۔ اپنے اقارب کونوازنے میں آپ دو تأویلوں کا شکار تھے؛ ان میں سے ہر تأویل فقہاء کے ایک طائفہ کا مذہب ہے ۔ پہلی تأویل:....اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت میں جوحصہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا رکھا تھا ؛ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے خلفاء کا حق ہے۔فقہاء کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے۔ اس بارے میں اس مسند اور معروف حدیث روایت
Flag Counter