Maktaba Wahhabi

149 - 702
٭ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیشک اللہ تعالیٰ نے اس امت سے دل کے خیالات پر پکڑ اٹھالی ہے جب تک کہ وہ بات نہ کرے؛ یا پھر اس پر عمل نہ کرلے۔‘‘[1] ٭ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب مؤذن اذان کہتاہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے اور مارے خوف کے وہ گوز مارتا جاتا ہے ؛ تاکہ وہ اذان کی آواز نہ سنے۔ جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو واپس آجاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب نماز کی اقامت کہی جاتی ہے تو پھر واپس آجاتا ہے تاکہ آدمی کے دل میں وسوسے ڈالے۔اوروہ کہتا ہے کہ فلاں بات یاد کر، فلاں بات یاد کر وہ تمام باتیں یاد جو اس کو یاد نہ تھیں یاد دلاتا ہے یہاں تک کہ آدمی بھول جاتا ہے کہ اس نے کس قدر نماز پڑھی ۔جب تم میں سے کسی ایک کے ساتھ ایسے ہو تواسے چاہیے کہ دو سجدے کرلے ۔‘‘[2] ٭ احادیث مبارکہ میں یہ بتادیا گیا ہے کہ ایسے وسواس اور خیالات اور یاددہانیاں شیطان کی طرف سے ہوتی ہیں ۔ اوروہ انسان کو یوں بھلا دیتا ہے کہ اسے پتہ بھی نہیں چلتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے۔ اور پھر اس صورت میں سہوکے دو سجدے کرنے کا حکم دیا۔ مگر اس پر اسے گنہگار نہیں کہا۔ اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ خفیف وسواس پر نماز باطل نہیں ہوتی ۔ہاں اگر وسوسے غالب آجائیں تو پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس انسان کو نماز دوبارہ پڑھنا چاہیے۔ ابو عبداللہ بن حامد نے یہ قول اختیار کیا ہے۔ لیکن صحیح مذہب وہی ہے جس پر جمہور کاربند ہیں ۔ اور یہ امام احمد رحمہ اللہ اور دیگر سے بھی منصوص ہے۔ کہ اس پر کوئی اعادہ نہیں ۔ کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث تمام وسوسوں کو عام اور مطلق ہے۔ اور ان میں نماز کو لوٹانے کا حکم نہیں دیا گیا۔ لیکن اس قدر اس کا اجر ضرور کم ہوتا ہے۔ ٭ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں : ’’ انسان کے لیے اس کی نماز میں اتنا ہی حصہ ہے جس قدر وہ نماز کو سمجھ کر پڑھتاہے۔ سنن میں حضرت عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے؛ آپ نے نماز پڑھی ؛ اور بہت ہی خفیف نماز پڑھی۔جب آپ سے اس بابت سوال کیا گیا؛ توآپ نے پوچھا: کیا میں نے اس میں کوئی کمی کی ہے؟ کہنے لگے: نہیں ۔
Flag Counter