Maktaba Wahhabi

162 - 702
جیسے امام مالک؛ احمد بن حنبل اور ابو حنیفہ رحمہم اللہ اور دیگر کے نزدیک اس پرفوری طور پر فوت شدہ نماز قضاء ہے؛ جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں : سویا ہوا بھول جانے والا اس میں تاخیر بھی کرسکتاہے۔ اور جو کوئی نماز کے بعض واجبات بھول جائے؛ وہ ویسے ہی ہے جیسے ساری نماز بھول جانے والا۔ اگر اس نے نماز پڑھ لی؛ اورپھر اسے وقت نکل جانے کے بعد یاد آیا کہ اس نے بغیر وضوء کے نماز پڑھی ہے؛ تو وہ اس نماز کو دوبارہ پڑھے گا۔ جیسے حضرت عمراور حضرت عثمان رضی اللہ عنہمانے لوگوں کو نماز پڑھائی؛ او رپھر انہیں یاد آیا کہ وہ حالت جنابت میں تھے؛ تو انہوں نے اپنی نماز دوبارہ پڑھ لی؛ مگر مقتدیوں کو نماز دوبارہ پڑھنے کا نہیں کہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ والی روایت میں ہے کہ آپ کو سورج طلوع ہونے کے بعد یاد آیا۔[1] ایسے ہی اگر کوئی انسان نماز میں تاخیر کرتا ہے؛ اوروہ اس تأخیرکو جائز سمجھتاہے؛ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احزاب کے موقع پر کیا تھا۔ آپ نے سورخ غائب ہو جانے کے بعد یہ نمازیں پڑھی تھیں ۔ تو اس تاخیر کی کوئی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ یا تو آپ بھو ل گئے تھے۔ یا پھر آپ کے حق میں اتنی تاخیر کرنا اس لیے جائز تھا کہ آپ دشمن کے ساتھ جنگ میں مشغول تھے۔ اس مسئلہ میں علمائے کرام رحمہم اللہ کے تین اقوال ہیں : یہ بھی کہا گیا ہے کہ: حالت جنگ میں ہی نماز پڑھی جائے گی؛ اس میں تاخیر نہیں کی جائے گی۔ اور خندق میں جو تأخیر کی گئی تھی؛ وہ حکم منسوخ ہو چکا ہے۔ یہ امام مالک امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا مشہور مذہب ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے تقدیم اور تاخیر کا اختیار ہے ۔اس لیے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا تھا کہ وہ عصر کی نماز بنو قریظہ میں پہنچ کر پڑھیں ؛ تو ان میں سے ایک گروہ نے تاخیر کی؛ حتی کہ عصر کی نماز سورج غروب ہونے کے بعد پڑھی۔ اوران میں سے ایک گروہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کامطلب یہ تھا کہ ہم دشمن کی طرف جلدی سے نکل پڑیں ؛ نماز کو اس کے وقت سے فوت کرنا مقصد نہیں تھا۔ تو انہوں نے راستے میں نماز پڑھ لی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی ایک گروہ پر بھی تنقید یا سختی نہیں کی۔ یہ حدیث صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے؛ اور اہل شام کے ایک گروہ کا مسلک ہے؛ اور امام احمد سے ایک روایت میں یہ بھی منقول ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ: وہ نماز میں تأخیر کرے گا؛جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے موقعہ پر کیا تھا۔ یہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک ہے۔ پس فی الجملہ جو کوئی بھی نماز میں تاخیر کرے؛ تو اسے معذور سمجھا جائے گا؛ یا تو اس کی بھول کی وجہ سے؛ یا پھر اجتہاد میں خطا کی وجہ سے۔ تو اس صورت میں وہ وقت کے بعد یہ نماز پڑھے گا۔ جیسے وہ انسان جو خیال کرتا ہو کہ سورج ابھی تک طلوع نہیں ہوا؛ اوروہ طلوع آفتاب تک نماز کو مؤخر کرتا ہے۔ یا جو خیال کرتا ہے کہ عصر کا وقت ابھی باقی ہے؛ اوروہ عصر کو مؤخر کرتا ہے حتی کہ سورج غروب ہو جاتا ہے۔ یہ انسان اب اسی وقت میں نماز پڑھ لے گا۔
Flag Counter