Maktaba Wahhabi

192 - 702
حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں کے سردار تھے۔ پس انسان پر سب سے پہلے یہ بات واجب ہے کہ اس کا نیکی کا حکم کرنا خالص اللہ کے لیے ہو اور اس امر بالمعروف سے اس کا قصد رب تعالیٰ کی طاعت و فرمانبرداری ہو اور وہ امورکی اصلاح چاہتا ہو یا دوسرے پر حجت قائم کرنا چاہتا ہو اور اگر اس کا مقصود اپنے لیے اور اپنی جماعت کے لیے ریاست و سیادت کی طلب یا دوسرے کی تحقیر و تنقیص ہو تو یہ کام غیرت[دینی] کے نام پر نہ ہو گا جو عند اللہ مقبول نہ ہو گا۔ اسی طرح اگر اس نے شہرت اور دکھلاوے کے لیے یہ فریضہ سرانجام دیا تو اس کا یہ عمل رائیگاں جائے گا۔ پھر اگر اس کی دعوت ردّ کر دی جاتی ہے یا اس پر اسے اذیت دی جاتی ہے یا اسے اس بابت خطاکار قرار دیا جاتا ہے اور یہ کہ اس کی غرض فاسد ہے تو اس کا نفس بدلہ لینے کا تقاضا کرے گا اور شیطان اسے بہکانے آ پہنچے گا۔ یوں اس کا وہ عمل جس کا آغاز اللہ کی رضا کے لیے کیا گیا تھا، پھر وہ خواہش نفس بن گیا تو اس کا نفس اسے ستانے والے سے انتقام لینے پر ابھارے گا۔ بلکہ بسا اوقات وہ ستانے والے پر ظلم و اعتداء بھی کر بیٹھے گا۔ مختلف اقوال و مذاہب رکھنے والوں کے ساتھ بھی یوں ہی ہوا کرتا ہے، جب ان میں سے ہر ایک یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ حق اسی کے ساتھ ہے اور وہ سنت پر مستقیم ہے۔ تو ان میں سے اکثر اس ہوائے نفسی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ عزت و وجاہت کا یا ریاست و سیادت کا، یا جو باتیں ان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں ان کا بدلہ لیں اور ان کا مقصد اب اعلائے کلمۃ اللہ نہیں رہ جاتا اور نہ انھیں اللہ کے دین کے سب پر غالب و قاہر ہونے کی پروا ہوتی ہے اور نہ یہ قصد ہوتا ہے کہ دین سارے کا سارا اللہ کا ہو جائے۔ بلکہ وہ اپنے مخالفین پر غضب ناک ہو رہے ہوتے ہیں چاہے وہ اپنے اجتہاد میں معذور ہی ہوں اور اللہ ان پر ذرا بھی ناراض نہ ہو اور اپنے ہم نواؤں پر مہربان ہو رہے ہوتے ہیں ۔ چاہے وہ جاہل اور برے ارادہ کا مالک ہی کیوں نہ ہو۔ نہ تو اسے علم حاصل ہو اور نہ حسن ارادہ ہی نصیب ہو۔ بے شک یہ امر انھیں اس بات کے دروازے تک لے جاتا ہے کہ یہ ان لوگوں کے حمد سرا ہو رہے ہوتے ہیں جن کی اللہ اور اس کے رسول کے ہاں کوئی حمد و ستائش نہیں نہیں ہوتی اور یہ لوگ ان کی مذمت میں لگے ہوتے ہیں جن کی اللہ اور اس کے رسول کے ہاں مذمت نہیں ہوتی۔ پس ان کی دوستی بھی اور دشمنی بھی صرف خواہش نفس کے مطابق ہوتی ہے ناکہ اللہ اور اس کے رسول کے دین کے مطابق ہوتی ہے۔ یہ ان کافروں کا حال ہوتا ہے جو صرف خواہش کے پیرو ہوتے ہیں اور اس کسوٹی پر ان کے دوست اور دشمن ہوتے ہیں اور منگولوں کی زبان میں ’’وفادار اور باغی‘‘ ہوتے ہیں ۔ ان کی نظروں میں اللہ اور رسول کے لیے دوستی یا دشمنی رکھنا نہیں ہوتا۔ یہیں سے لوگوں میں فتنے جنم لیتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ قَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ﴾ (الانفال: ۳۹) ’’اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کے لیے ہو جائے۔‘‘ اور دین سارے کا سارا اللہ کے لیے نہیں ہوتا تو فتنے سر اٹھاتے ہیں ۔
Flag Counter