Maktaba Wahhabi

22 - 702
۲۔ دوسری دلیل حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے کہ ’’اگرمیں چاہوں تو مسجد میں رات بسر کروں ‘‘ مسجد میں رات بسر کرنا کون سی بڑی بات ہے کہ اس پر خوشی کا اظہار کیا جائے۔ ۳۔ تیسری دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے کہ ’’میں نے لوگوں سے چھ ماہ پیشتر کعبہ رو ہو کر نمازیں پڑھیں ۔‘‘ اس قول کا باطل ہونا ضرورت کے تحت معلوم ہے۔ وجہ بطلان یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشرف بہ اسلام ہونے اور حضرت ابوبکر و خدیجہ و زید رضی اللہ عنہم کے اسلام میں صرف ایک دن یا اس کے لگ بھگ کا فرق پایا جاتا ہے۔ پھر یہ بات کیونکر درست ہو ئی کہ آپ نے لوگوں سے چھ ماہ پہلے نمازیں ادا کی تھیں ۔ ۴۔ چوتھی دلیل یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو ’’ صاحب الجہاد‘‘ کہاہے، حالانکہ اس خصوصیت میں کثیر تعداد میں دوسرے صحابہ بھی آپ کے ساتھ برابر کے سہیم و شریک تھے۔ ان دلائل کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ یہ حدیث موضوع [من گھڑت]ہے۔ جب کہ صحیح مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر سے جو حدیث مروی ہے وہ اس کی تردید کرتی ہے۔ حضرت نعمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ میں منبر نبوی کے پاس بیٹھا تھا۔ اسی دوران ایک شخص نے کہا:’’ میں اسلام لانے کے بعد کوئی کام نہ بھی کروں تب بھی مجھے کوئی پرواہ نہیں سوائے حاجیوں کو پانی پلانے کے ۔‘‘ دوسرے نے کہا: میں مسجد حرام کو آباد کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ تیسرے نے جہاد کا ذکر کیا اور کہا کہ :یہ ان دونوں سے افضل ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر انھیں ڈانٹا اور فرمایا کہ جمعہ کے دن منبر نبوی کے نزدیک یہ شوروغل موزوں نہیں ۔ البتہ میں جمعہ سے فارغ ہو کرمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہارے اختلافی مسائل کا حل دریافت کروں گا۔ تب مندرجہ ذیل آیت کریمہ نازل ہوئی: ﴿اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْجَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (التوبۃ:۱۹) ’’ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کو آباد کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر بنا دیا جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرے؟‘‘ [1] اس سے معلوم ہوا کہ اس حدیث میں نہ ہی ائمہ کی کوئی خصوصیت ہے اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خصوصیت۔ کیونکہ جو اصحاب اللہ تعالیٰ پر او ر آخرت کے دن پر ایمان لائے اوراللہ کی راہ میں جہادکیا ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مہاجرین اور انصار صحابہ کرام اس وصف میں آپ کے شریک ہیں ۔حضرات ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ان سب سے ایمان و جہاد میں بڑھ کر ہیں ۔ جیسا کہ خود اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
Flag Counter