Maktaba Wahhabi

235 - 702
﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنo﴾ (الفاتحۃ: ۶۔۷) ’’ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں ۔‘‘ ان انعام یافتہ لوگوں کا ذکر اس آیت میں ہے: ﴿فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًاo﴾ (النساء: ۶۹) ’’تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں ۔‘‘ مطلق انعام میں تو صرف مومنین داخل ہیں ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مومنوں کی طاعت گزاری ہی وہ شے ہے جس کا رب تعالیٰ نے ان پر انعام کیا ہے۔ ایمان والوں اور کفر والوں پر انعام برابر ہوتا تو دونوں کے دونوں صراطِ مستقیم پر ہوتے۔ اور غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ یہ صفت ہے ناکہ استثنا، کیونکہ یہاں ’’غیر‘‘ مجرور ہے۔ جیسا کہ عربوں کا قول ہے: اِنِّیْ لَاَمُرُّ بِالصَّادِقِ غَیْرَ الْکَاذِبِ‘‘ (میں ایک سچے کے پاس سے گزرتا ہوں جو جھوٹا نہیں ہے)۔ پس مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ اور ضالین یہ منعم علیہم (انعام یافتہ لوگوں ) میں شامل و داخل نہیں ہیں کہ استثنا میں مغایرت ہوتی ہے۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَنْ یَّہْدِ اللّٰہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَلَہٗ وَ لِیًّا مُّرْشِدًاo﴾ (الکہف: ۱۷) ’’جسے اللہ ہدایت دے سو وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے گمراہ کر دے، پھر تو اس کے لیے ہرگز کوئی رہنمائی کرنے والا دوست نہ پائے گا۔‘‘ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ہدایت یافتہ وہی ہے جسے اللہ ہدایت دے اور اگر رب تعالیٰ کافر کو بھی ایک مومن کی طرح ہدایت سے نواز دیتا تو وہ کافر بھی ہدایت یافتہ ہوتا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں : ﴿رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآئِo رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُo﴾ (ابراہیم: ۴۰۔۴۱) ’’اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، اے ہمارے رب! اور میری دعا
Flag Counter