Maktaba Wahhabi

238 - 702
﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمo﴾ جب کہ یہ بات کسی بندہ بشر کے حق میں نہیں مانگی جاتی، کیونکہ بندے اس بات پر قادر ہی نہیں ہیں اور بندہ رب تعالیٰ سے یہ دعا مانگتا ہے کہ وہ علم و فہم نصیب کرے، شرح صدر سے نوازے اور ایمان اور عمل صالح کو اس کے نزدیک محبوب بنا دے جبکہ یہ بات غیر اللہ سے نہیں مانگی جاتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہُ لِلْاِِسْلَامِ فَہُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہِ﴾ (الزمر: ۲۲) ’’تو کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے، سو وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر ہے (کسی سخت دل کافر جیسا ہو سکتا ہے؟)‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا﴾ (الانعام: ۱۲۵) ’’تو وہ شخص جسے اللہ چاہتا ہے کہ اسے ہدایت دے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ اسے گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کر دیتا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ فَفَہَّمْنٰہَا سُلَیْمٰنَ﴾ (الانبیاء: ۷۹) ’’تو ہم نے وہ (فیصلہ) سلیمان کو سمجھا دیا۔‘‘ رب تعالیٰ نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کو تفہیم کے ساتھ خاص فرمایا حالانکہ دونوں حاکم اور قاضی تھے اور دونوں میں سے ایک کو علم ظاہری کے ساتھ خاص نہ فرمایا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰہَاo فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَاo﴾ (الشمس: ۷۔۸) ’’اور نفس کی اور جس نے اسے ٹھیک بنایا! پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری (کی پہچان) اس کے دل میں ڈال دی۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ان الفاظ کے ساتھ قسم اٹھایا کرتے تھے:’’ لَا وَ مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ‘‘[1] ’’اس ذات کی قسم جو دلوں کو پلٹنے والی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’سب بندوں کے دل رب رحمان کی دو انگلیوں کے بیچ ہیں ، اگر اللہ اسے سیدھا رکھنا
Flag Counter