Maktaba Wahhabi

267 - 702
’’اے میری قوم! بے شک میں اس سے بری ہوں جو تم شریک بناتے ہو۔ بے شک میں نے اپنا چہرہ اس کی طرف متوجہ کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، ایک (اللہ کی ) طرف ہو کر اور میں مشرکوں سے نہیں ۔ اور اس کی قوم نے اس سے جھگڑا کیا، اس نے کہا کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو، حالانکہ یقیناً اس نے مجھے ہدایت دی ہے اور میں اس سے نہیں ڈرتا جسے تم اس کے ساتھ شریک بناتے ہو، مگر یہ کہ میرا رب کچھ چاہے، میرے رب نے ہر چیز کا احاطہ علم سے کر رکھا ہے، تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ اور میں اس سے کیسے ڈروں جسے تم نے شریک بنایا ہے، حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ بے شک تم نے اللہ کے ساتھ اس کو شریک بنایا ہے جس کی کوئی دلیل اس نے تم پر نہیں اتاری، تو دونوں گروہوں میں سے امن کا زیادہ حق دار کون ہے، اگر تم جانتے ہو۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو بڑے ظلم کے ساتھ نہیں ملایا، یہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں ۔ اور یہ ہماری دلیل ہے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلے میں دی، ہم درجوں میں بلند کرتے ہیں جسے چاہتے ہیں ۔ بے شک تیرا رب کمال حکمت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿قَالَ اَفَرَاَیْتُمْ مَا کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَo اَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمُ الْاَقْدَمُوْنَo فَاِِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِّی اِِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَo﴾ (الشعراء: ۷۵۔۷۷) ’’کہا تو کیا تم نے دیکھا کہ جن کو تم پوجتے رہے۔ تم اور تمھارے پہلے باپ دادا۔ سو بلاشبہ وہ میرے دشمن ہیں ، سوائے رب العالمین کے۔‘‘ خلیل وہ ہوتا ہے جس کے دل میں اپنے دوست کی محبت گھر کر گئی ہو اور وہاں کسی اور کی محبت کا گزر نہ ہو، چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے: ؎ قَدْ تَخَلَّلَتْ مَسْلَکَ الرُّوْحِ مِنِّیْ وَ بِذَا سُمِّيَ الْخَلِیْلُ خَلِیْلًا ’’وہ میری روح کی گزرنے کی جگہ میں جا گھسی ہے اور اسی لیے خلیل کو خلیل کہتے ہیں ۔‘‘ ایک قول یہ ہے کہ لفظ خلیل الخلۃ سے مشتق ہے، جس کا معنی فقر ہے۔ لہٰذا خلیل کا معنی فقیر ہو گا۔ چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے: ؎ وَ اِنْ اَتَاہُ خَلِیْلٌ یَوْمَ مَسْغَبَۃٍ یَقُوْلُ لَا غَائِبٌ مَالِیْ وَ لَا حَرَامٌ ’’اگر میرے ممدوح کے پاس قحط اور فاقہ کے دن کوئی فقیر آ جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ آج نہ تو میرا مال
Flag Counter