Maktaba Wahhabi

346 - 702
’’ بیشک اطاعت نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ہوگی۔‘‘[1] اور ارشادفرمایا: ’’ خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ہوگی۔‘‘ [المسند ۵؍۶۶] مزید فرمایا: ’’ جو کوئی تمہیں اللہ کی نافرمانی کا حکم دے ‘ تو اس کی بات نہ مانو۔‘‘ [المسند ۳؍۶۷]۔ ٭ معترض کا یہ کہنا کہ: اسکی امامت کیسے جائز ہوسکتی ہے جو سیدھی راہ پر چلنے کے لیے رعیت سے مدد طلب کرتا ہو؛حالانکہ رعیت کو اس کی حاجت وضرورت ہو؟‘‘ ٭ یہ اعتراض تمام باہم تعاون کرنے والوں اورکسی کام میں بوقت ضرورت شرکت کرنے والوں پر ہے۔ یہاں تک کہ تجارت اور صناعت گری پر بھی یہ اعتراض وارد ہوتا ہے۔نماز کے امام کی یہی منزلت ہوتی ہے۔مامومین کو امام کی ضرورت ہوتی ہے ۔ امام ہی ان کی طرف سے سہو وغیرہ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ایسے ہی جمہور کے نزدیک قرأت کی ذمہ داری بھی صرف امام پر عائد ہوتی ہے۔ امام جب بھول جاتا ہے تو اپنے مقتدیوں سے مدد طلب کرتا ہے ؛ اور لوگ اسے تنبیہ کرتے اور اس کی اصلاح کرتے؛ اور اسے سیدھی راہ پر لاتے ہیں ۔اگر وہ نماز میں کوئی ایسی غلطی کرے ‘ جس سے نماز کی شرعی کیفیت سے خارج ہوجائے تو لوگوں پر اس کی اتباع نہیں ۔ اس طرح کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ ٭ پھر اس کے جواب میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی رعیت سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ مدد طلب کی اور انھیں مدد طلب کرنے کی ضرورت بھی حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں زیادہ تھی۔ نیز یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی رعیت کی زیادہ رہنمائی کی اور ان کی رعیت بھی ہمیشہ ان کی مطیع فرمان رہی۔(اور رعیت کو یہ موقع کم ہی حاصل ہوا کہ انھوں نے کسی وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رہنمائی کی ہو)۔ اس لیے کہ لوگ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی مسئلہ پر اختلاف کرتے تو آپ ان پر حجت قائم کرتے ؛ اور لوگ پھر آپ کی طرف رجوع کرلیتے۔جیسا کہ آپ نے مانعین زکوٰۃ کے مسئلہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر حجت قائم کی ۔اس طرح کی دیگر بھی کئی مثالیں ہیں ۔ اور جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ عوام کو کسی بات کا حکم دیتے تو وہ آپ کی اطاعت کرتے۔ بخلاف ازیں حضرت علی رضی اللہ عنہ اس حد تک اپنی رعایاکو جادۂ مستقیم پر نہ لا سکے اور ان کی رعیت چنداں اطاعت کیش بھی نہ تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے امہات الاولاد (وہ لونڈیاں جو صاحب اولاد ہو جائیں ) کے بارے میں فرمایا کہ میں اس ضمن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول سے متفق ہوں کہ ان کو فروخت نہ کیا جائے۔ پھر آپ نے فروخت کرنے کا حکم دے دیا۔‘‘ تو آپ کے قاضی عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ نے کہا:
Flag Counter