Maktaba Wahhabi

360 - 702
گیا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری با جماعت نماز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے ادا کی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی اور کے پیچھے آپ نے آخری نماز پڑھی ۔ [صحیح بات یہی ہے کہ کوئی اور نہیں تھا وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہی تھے ]۔ پھر ایسی حالت میں یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایک طرف انہیں لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ کیا جائے اور دوسری طرف لوگوں کو نمازیں پڑھانے کے لیے امام مقرر کیا جائے ۔؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کو اپنی بیماری سے پہلے تیار کیا تھا۔ اس لشکر کے امیر عام حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ اس میں زیادہ تعداد مہاجرین کی تھی۔ اس لشکر میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اس لشکر کی تعداد تین ہزار تھی۔انہیں حکم ملا تھا کہ فلسطین کے نواحی علاقہ موتہ پر جاکر حملہ کریں ۔ جہاں پر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت زید رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن رواحہ اور جعفر طیار رضی اللہ عنہم شہید ہوئے تھے۔حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما جہاد کے لیے تیار ہوئے اور آپ اسی بوجھ کا شکار جرف تک نکلے۔تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی وجہ سے کئی دن تک جرف میں پڑاؤ کیے رہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا؛ اور آپ سے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ کا نام لے کراس کی برکت پر نصرت و عافیت کے ساتھ چلو ۔پھر وہاں جا کر حملہ کرو جہاں پر حملہ کرنے کا حکم میں نے دیا ہے ۔‘‘ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ بہت کمزور ہوگئے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت سے نوازے گا‘ مجھے اجازت دیجیے کہ میں کچھ دن یہاں پر رک جاؤں ؛ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ کو شفا دے دے ۔ اگر میں اس حالت میں چل پڑا تو میرے دل میں آپ کے متعلق بے چینی اورملال رہے گا۔ اور مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ میں آپ کے متعلق لوگوں سے پوچھتا رہوں ۔ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش رہے ۔ اس کے کچھ دن بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو آپ نے جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد روانہ کیا تھا اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لشکر کے ساتھ نہ بھیجنے کی اجازت حاصل کر لی تھی۔ اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک مدبر آدمی تھے، جن کی مدینہ میں اس وقت شدید ضرورت تھی ۔ تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس کی اجازت دے دی تھی۔[1] پھر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اس طرف چل پڑے جہاں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا۔ اس لشکر کی وجہ سے دشمن پر بہت بڑی مصیبت آئی۔اور آپ کو بہت بڑی غنیمت حاصل ہوئی۔اور آپ نے اپنے والد کے قاتل کو قتل کیا۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس لشکر کو امن و سلامتی اورعافیت کے ساتھ مدینہ واپس لوٹا دیا ۔ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا تو آپ نے کہا :
Flag Counter