Maktaba Wahhabi

384 - 702
فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علم سے بڑھ کر ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ ان چیزوں کی جانکاری اور عدل و انصاف کے قائم کرنے کے زیادہ حق دار تھے۔ جو کوئی اس معاملہ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کوحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑا عالم اورعادل کہے ؛ وہ لوگوں میں سب سے بڑا جاہل ہے۔ خصوصاً جب کہ جمہور مسلمین کی اس مسئلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینے میں کوئی غرض ہی نہیں تھی۔ تمام ائمہ اور فقہاء کا متفقہ مسئلہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنا مال وراثت میں نہیں چھوڑتے ۔حالانکہ یہ تمام حضرات سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عزت و قدر کرتے ہیں اورآپ کی عظمت کا خیال رکھتے ہیں ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ کسی فرمان کو لوگوں کے اقوال کے مقابلہ میں ترک بھی نہیں کرتے ۔اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم بھی نہیں دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور سے اپنا دین اخذ کریں ۔نہ ہی آپ کے اقارب سے ‘ اورنہ ہی غیر اقارب سے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واتباع کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے : ’’ وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جو عورت کو اپنا بڑا بنالیں ۔‘‘[1] توپھر امت کے لیے کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم شدہ سنت چھوڑ کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے منقول حکایات کو مان لیں کہ آپ نے اپنی میراث طلب کی تھی ؛ اس لیے کہ آپ کو یقین تھا کہ انہیں وراثت ملے گی۔[2]
Flag Counter