Maktaba Wahhabi

420 - 702
یہ سب کچھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کمال علم و عدل کی وجہ سے تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ﴾ [الأنعام۱۱۵] ’’آپ کے رب کا کلام سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو علم اور عدل کے ساتھ مبعوث فرمایا۔جو بھی علم و عدل میں جتنا کامل ہوتا ؛ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کے لائے پیغام کے اتنا ہی زیادہ قریب ہوتا۔اور یہ وصف دوسرے لوگوں سے بڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں نمایاں تھا۔جب کہ عمل اور عدل میں یہ وصف تقریباً ہر کسی میں پایاجاتا ہے۔جب کہ علم میں یہ وصف آپ کی رائے اور مسلمانوں کی مصلحتوں سے علم ؛ اور ان امور سے معلوم ہوسکتا ہے جو مسلمانوں کی دنیا اور دین میں ان کے لیے نفع بخش یانقصان دہ ہوں ۔ اور ان اختلاف مسائل کی معرفت سے معلوم ہوسکتا ہے جن میں آپ کا بھی ایک قول ہو ؛ اورکسی دوسرے کا بھی اس میں کوئی قول ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اختلافی مسائل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اصابت رائے حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہماکی رائے سے کہیں بڑھ کر درست [اور زیادہ تعداد میں ] ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل مدینہ آپ کے قول کی طرف زیادہ مائل ہواکرتے تھے۔اور اہل مدینہ کا مذہب باقی تمام بلاد و امصار کے مذہب پر راجح ہوتا ہے۔اس لیے کہ پہلی تین صدیوں تک کسی بھی اسلامی شہر میں اہل مدینہ سے بڑھ کر علماء اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاننے والے نہیں ہوا کرتے تھے۔ اور اہل مدینہ کا بالاتفاق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول پر حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ جب کہ اہل کوفہ کا پھلا طبقہ جن کا شمارحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں ہوتا ہے ؛ یہ لوگ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ یہ اہل کوفہ کے افضل ترین لوگ تھے۔ حتی کہ اہل کوفہ کے قضاۃ قاضی شریح؛ عبیدہ سلمانی رحمہما اللہ اور ان کے امثال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کو صرف اکیلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ ٭ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ میں نے کبھی بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکھا؛ مگر مجھے یوں لگتا تھا کہ آپ کی پیشانی پر ایک فرشتہ ہے ؛ جوکہ آپ کو راہ راست پر چلاتا رہتا ہے ۔‘‘[1] ٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم یہ رائے رکھتے تھے : ’’سکینہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان سے جاری ہوتا ہے ۔‘‘[2] ٭ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہے:حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اسلام پیش قدمی کرنے والے انسان کی طرح ہوا کرتا تھا؛ وہ آگے ہی آگے بڑھتا جارہا تھا۔جتنا آگے بڑھتا اتنا قریب ہوتا جاتا ۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے تو اسلام پیٹھ پھیرکر بھاگنے والے کی طرح ہوگیا ؛ اوراب وہ دور ہی ہوتا جارہا ہے ۔‘‘[3]
Flag Counter