Maktaba Wahhabi

426 - 702
زید بن وہب سے روایت ہے کہ :ایک آدمی کو معقل بن مقرن ابوعمیرہ نے ایک آیت پڑھائی ۔ اور عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی ایک آدمی کو ایک آیت پڑھائی۔ ان دونوں آدمیوں نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا: ’’ توآپ نے ایک سے دریافت کیا تمہیں کس نے یہ آیت پڑھائی ہے ؟ اس نے کہا: معقل بن مقرن ابوعمیرہ نے۔ دوسرے سے پوچھا : تمہیں کس نے یہ آیت پڑھائی ہے ؟ اس نے کہا : عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے ۔ تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رونے لگ گئے یہاں تک آپ کے آنسو بہہ پڑے۔ اور پھر فرمانے لگے :’’ ایسے ہی پڑھو جیسے عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے تمہیں پڑھایاہے۔بیشک عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ ہم سب سے بڑھ کر قرآن کی تلاوت کرنے والے اور اللہ کے دین کو جاننے والے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلامی قلعہ کی ایک مضبوط دیوار تھے۔اس قلعہ میں لوگ داخل ہوا کرتے تھے ؛ یہاں سے کوئی باہر نہیں نکلتا تھا۔جب آپ قتل کردیے گئے تو اس دیوار میں ایسی نقب لگ گئی کہ کسی کے لیے اس کو پُر کرنا ممکن نہ رہا۔اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی راستے پرچلتے تو ہم آپ کی اتباع کرتے ؛ اور اسے ایک آسان راستہ پاتے ۔ اور جب کبھی اگر صالحین کا تذکرہ کیا جائے تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے مبارک ہے ؛تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے مبارک ہے ؛تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے مبارک ہے ۔ ٭ عبد اللہ بن احمد اپنی سند سے روایت کرتے ہیں کہ امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ جب لوگوں کے مابین کسی مسئلہ میں اختلاف ہوجائے تو پھر دیکھو کہ حضرت عمر نے کیا کیا ہے ؛ اس کو لے لو۔‘‘[طبقات ابن سعد ۳؍۳۷۱] ٭ ابن مہدی نے حماد بن زید رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے ‘ وہ کہتے ہیں : خالد الحذاء رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: ’’ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ وہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس پرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کاربند ہیں ‘وہ اس سے پہلے کی سنت کی ناسخ ہے۔ ٭ ابن بطہ رحمہ اللہ نے اپنی سند سے صالح المرادی سے نقل کیاہے ‘وہ عبد خیر سے نقل کرتے ہیں ؛ آپ فرماتے ہیں : ’’میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ دیکھا؛ آپ نے عصر کی نماز پڑھی؛ اہل نجران کے آپ کے پیچھے دو صفیں بنائیں ۔جب آپ نے نماز پڑھ لی تو ان میں سے ایک آدمی نے دوسرے کی طرف اشارہ کیا ۔ اس نے ایک تحریر نکال کر حضرت کے ہاتھ میں دیدی۔ جب آپ نے وہ تحریر پڑھی تو آپ کے آنسو چھلک پڑے۔ پھر آپ نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور ان سے مخاطب ہوکر کہنے لگے : ’’ اے اہل نجران ؛ یا فرمایا: اے میرے دوستو! اللہ کی قسم ! یہ میرے ہاتھ کی تحریر ہے؛ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے یہ تحریر لکھوائی تھی۔ وہ لوگ کہنے لگے : اے امیر المؤمنین! اس میں جوکچھ تحریر ہے ‘ وہ ہمیں دیجیے ۔ پس میں آپ کے قریب ہوا اور [ میں نے اپنے دل میں ]کہا: ’’ اگر آپ عمر رضی اللہ عنہ پر رد کرنے والے ہوئے ؛ تو آج کے دن رد کریں گے۔ آپ فرمانے لگے : ’’ جو کچھ عمر رضی اللہ عنہ نے تحریر کیا ہے ‘ میں اس میں سے کسی چیز پر بھی رد کرنے والانہیں ہوں ۔بیشک عمر رضی اللہ عنہ اپنے معاملات میں ہدایت و رشد کے پیکر تھے۔ بیشک عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ آپ کو دیا ہے وہ اس سے بہت بہتر ہے جو آپ سے لیاہے۔اور جو کچھ آپ سے لیاہے وہ اس سے بہتر ہے جو
Flag Counter