Maktaba Wahhabi

433 - 702
فرمایا گیا ہے۔ان کاکہنا ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا: ’’ جاؤ تلاش کرو اگرچہ تمہیں لوہے کی ایک انگوٹھی ہی مل جائے ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ مبالغہ کے طور پر ارشاد فرمایا تھا۔اگر مہر کی کم سے کم مقدار مقرر کرنے والے اس کی یہ تاویل کرسکتے ہیں تو پھر زیادہ سے زیادہ کی حد مقرر کرنے والوں کی تأویل بھی بجا ہے ۔ پس اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ باقی لوگوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی تائید و نصرت اور ہدایت سے نوازا تھا ۔ اورآپ کے ضعیف اقوال جن سے آپ نے رجوع بھی کرلیا تھا ؛ اور ان پر مصر نہیں رہے تھے ؛ وہ ان لوگوں کے ضعیف اقوال سے بہت بہتر ہیں جنہوں نے اپنے اقوال سے رجوع نہیں کیا۔ مزید برآں کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی خطاؤوں کو معاف کر دیا ہے اگرچہ کوئی ان سے رجوع نہ بھی کرے تو پھر ان کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں جنہوں نے اپنی غلطی سے رجوع بھی کرلیا تھا؟ یہ بات کئی مقامات پر بیان کی جاچکی ہے کہ سلف صالحین صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم و رحمہم اللہ کے اجتہادات متأخرین کے اجتہادات کی نسبت زیادہ کامل ہوتے تھے۔ اور ان میں حق اور درستگی متأخرین کی نسبت بہت زیادہ ہوتی تھی۔ اور ان کی خطائیں متأخرین کی خطاؤوں کی نسبت بہت کم اور خفیف ہوا کرتی تھیں ۔ پس صحابہ اور تابعین میں سے جن لوگوں نے نکاح متعہ کے درست ہونے کا کہا ہے؛ ان کی خطأ ان متأخرین کی نسبت کم او ر آسان ہے جنہوں نے حلالہ کو درست کہا ہے۔اس کی بیس سے زیادہ وجوہات ہیں ؛ جنہیں ہم نے ایک علیحدہ کتاب میں بیان کیا ہے۔ اور صحابہ اور تابعین میں سے جن لوگوں ایک درہم کے بدلے دو درہم کی خرید و فروخت کو درست کہا ہے ؛ ان کی خطا ان متأخرین کی نسبت بہت ہلکی ہے جو حیلے کرکے سود کو جواز فراہم کرتے ہیں ۔ اور جن متأخرین نے مفقود الزوج عورت کے بارے میں حضرات صحابہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر کے قول کا انکار کیا ہے: کہ جب اس کا شوہر آجائے تو اسے اختیار دیا جائے گا؛کہ وہ مہر یا عورت میں سے ایک چیز چن لے؛ ان کا یہ قول ضعیف ہے۔ اور صحابہ کا قول حق اور ثواب اور شریعت کے اصولوں کے مطابق ہے۔اورجن لوگوں نے اسے خلاف قیاس کہا ہے ؛ اور کہا ہے کہ جب حاکم اس پر فیصلہ دے تو وہ نافذ نہیں ہوگا؛ انہوں نے یہ بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مآخذ اور ان کے فہم و استدلال کی دقت ؍گہرائی سے عدم معرفت کی بنیاد پر کہی ہے۔ بیشک یہ قول بوقت ضرورت عقود کے موقوف ہوجانے پر مبنی ہے۔جو کہ شریعت کے اصولوں میں سے ایک سنہری اصول ہے۔ ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زبردستی حاصل ہونے والی زمین کو جو مال ِ فئے قرار دیا تھا؛ اس میں یہی بات حق اور درست ہے۔نہ کہ ان متأخرین کی بات جو کہ اس کو سمجھ ہی نہیں سکے۔ اور اہل قبلہ کے ساتھ قتال کے جس مسئلہ کی طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اشارہ کیا ہے؛ وہی قول برحق ہے؛ نہ کہ ان خوارج اور دیگر متأخرین کا قول جو اس مسئلہ کوسمجھ ہی نہیں سکے۔ ایسے ہی ایمان ؛ نذور ؛طلاق اور خلع کے جن مسائل میں حضرت ابن عباس اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتوے دیے ہیں ان کے فتاوی ہی برحق و صواب ہیں ۔ نہ کہ ان متأخرین کا قول جو مسئلہ کی حقیقت سے لاعلم ہیں ۔
Flag Counter