Maktaba Wahhabi

439 - 702
جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ کو یہ یاد دلایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر رجوع کرلیا اوراس عورت پر حد قائم نہ کی۔ معنی یہ ہے کہ وہ عورت اس کا کھل کر اظہار کرتی تھی ؛ اور اسے مباح سمجھتی تھی ؛ جیسے کوئی انسان کسی ایسی چیز کا اظہارکرتا ہے جسے وہ برا نہ سمجھتا ہو۔ جیسا کہ کھانا پینا شادی کرنا وغیرہ۔ جب وہ اس کا برا نہیں سمجھ رہی تھی تو اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ زناکے حرام ہونے کے حکم سے جاہل تھی۔ اس لیے کہ حد صرف ان لوگوں پرقائم کرنا واجب ہوتی ہے جنہیں اس فعل کے حرام ہونے کاعلم ہو ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا﴾ (الإسراء ۱۵) ’’ اورہم اس وقت تک عذاب دینے والے نہیں جب تک رسول کو مبعوث نہ کردیں ۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ﴾ [النساء۱۶۵] ’’تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر رہ نہ جائے ۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ان کفار سے جنگ کرنا جائز نہیں ہے جن تک اسلام کی دعوت نہ پہنچی ہو؛ حتی کہ انہیں دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جائے۔ ایسے ہی جو کوئی ایسا انسان نیا نیا مسلمان ہونے کی وجہ سے کسی حرام کام کا ارتکاب کربیٹھے؛ اوروہ اس کے حرام ہونے کا حکم نہ جانتا ہو؛ یا پھر وہ ایسے معاشرہ میں پروان چڑہا ہو جہاں پر جہالت عام ہو ؛ تو اس پر حد قائم نہیں کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو سزا نہ دی تھی جورمضان میں صبح کو اس وقت تک کھاتا رہا حتی کہ سفید دھاگہ کالے دھاگے سے علیحدہ ہوگیا۔اس لیے کہ اس سے تاویل میں غلطی ہوئی تھی۔ آپ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو کوئی سزا نہ دی؛ جب آپ نے اس آدمی کوقتل کردیا تھا جس نے لا إلہ إلا اللّٰہ کہہ دیا تھا۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ اس کو قتل کرنا جائز ہے۔کیونکہ آپ نے یہ فرمایا تھا: کہ اس نے اپنی جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا۔ ایسے ہی اس سریہ والوں کا حال ہے جنہوں نے ایک آدمی کو قتل کردیا تھا؛ جس نے کہا تھا: میں مسلمان ہوں ۔ پھر اس کا مال لے لیا گیا۔ مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی سزا نہیں دی۔کیونکہ یہ لوگ متأول تھے۔ ایسے ہی جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بنو جذیمہ کوقتل کردیا؛ کیونکہ انہوں نے کہا تھا: ہم صبائی ہوگئے ؛ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تاویل کی وجہ سے انہیں کوئی سزا نہیں دی۔ ایسے ہی مالک بن نویرہ کے قتل پر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو کوئی سزا نہیں دی ؛ کیونکہ آپ متأول تھے۔ ایسے ہی جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک نے دوسرے سے کہا: اے منافق؛ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی سزا نہیں دی۔کیونکہ وہ متأول تھا۔
Flag Counter