Maktaba Wahhabi

448 - 702
سے دے سکتے ہیں ۔[ اس سے زیادہ نہیں ]۔صحیح حدیث میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے؛ آپ فرماتے ہیں : ’’ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی طرف ایک غزوہ میں شرکت کی۔ہمارا حصہ بارہ بارہ اونٹ بنے ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایک اونٹ انعام دیا۔‘‘[البخاری ۵؍۱۶۰]۔ یہ انعام اسی وقت دیا جاسکتاہے جب خمس نکال دیا گیا ہو۔ فی الجملہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے ۔[عدل و انصاف میں بھلا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہم سر اور کون ہوگا جن کے قلب و لسان پر حق ہمہ وقت جاری و ساری رہتا تھا]مگر آپ کے لیے مصلحت کے پیش نظر ایسا کرنا جائز تھا۔آپ وہ شخصیت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان اور دل پر حق کو جاری کردیا تھا۔ ٭ جہاں تک عطیات میں فرق کا تعلق ہے؛ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بلا ریب تقسیم غنیمت میں فرق اور تفضیل کے قائل تھے؛ اور اس میں آپ مراتب کو بھی پیش نظر رکھتے تھے۔آپ نے اس سلسلہ میں لوگوں کے مراتب مرتب کئے ہوئے تھے۔ یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا تھا: ’’ اگر مجھے آئندہ سال تک زندگی ملی تو میں تمام لوگوں کو ایک ہی طرح کردوں گا ۔‘‘[یعنی فرق ختم کردوں گا]۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مساوات کے اصول پر عمل پیرا تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی مساوات کے قائل تھے ۔جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تفضیل پر عمل کرتے تھے۔ بہر کیف یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔اور اختلاف یہ ہے کہ کیا امام کے لیے مصلحت کے پیش نظر فضیلت دینے کا اختیار ہے یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں ۔ اور امام احمد سے بھی دو روایات منقول ہیں ۔ برابری کرنا امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کا مسلک ہے جب کہ تفضیل کا جواز امام مالک کا مسلک ہے ۔[ رحمہم اللہ]۔ شیعہ مصنف کی یہ بات بے اصل ہے کہ: ’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے مساوات واجب کی ہے۔‘‘ مگر اس نے اس کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی، اگر دلیل ذکر کرتا تو دیگر اجتہادی مسائل کی طرح ہم اسے بھی موضوع گفتگو ضرور بناتے۔علمائے کرام میں سے جن لوگوں نے مساوات کا حکم دیا ہے؛ وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی جنس کے لوگوں میں میراث کو برابر [مساوات کے ساتھ ] تقسیم کیا ہے۔ اور کسی ایک کو کسی خاص وجہ سے فضیلت نہیں دی۔ جب کہ تفضیل کے قائلین کہتے ہیں : ’’میراث کا استحاق سبب کی بنیاد پر ہے ؛ عمل کی وجہ سے نہیں ۔ اس پر انہوں نے دلیل یہ پیش کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت کی تقسیم میں ایک ہی جنس کے لوگوں کے مابین مساوات برتی ہے۔ مثلاً آپ نے پیادہ کو ایک حصہ دیا؛ اور سوار کو تین حصے دیے۔ جیسا کہ صحیحین میں ثابت ہے۔ یہ قول جمہور علماء : امام مالک؛ امام شافعی؛؛ اور احمد رحمہم اللہ نے بھی اختیار کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے سوار کو دو حصے دیے۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔ اور اس بارے میں ضعیف احادیث بھی روایت کی گئی ہیں ۔ صحیحین میں ہے: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والے سال گھوڑے سوار کو تین حصے دے؛ ایک حصہ اس کا؛ اور دوحصے اس کے گھوڑے کے ۔ اس موقع پر دو سو گھوڑے تھے۔ اور کل صحابہ کرام کی تعداد چودہ سو تھی۔ آپ نے مال غنیمت کو
Flag Counter