Maktaba Wahhabi

474 - 702
کی حامل تھی۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِرُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ﴾ (الفتح:۲۹) ’’ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں ۔‘‘ نیز فرمایا:﴿اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ﴾ (المائدۃ:۵۴) ’’ وہ نرم دل ہوں گے مسلمانوں پر سخت اور تیز ہوں گے کفار پر۔‘‘ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فاروقی شدت وحدت اور صدیقی لطف و کرم دونوں کے جامع تھے۔ اور اسی بات کا حکم دیتے تھے جو عدل و انصاف پر مبنی ہوا کرتی تھی۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماآپ کی اطاعت کا دم بھرتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں حضرات کے امور و افعال کمالِ استقامت کے آئینہ دار تھے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے اور یہ دونوں اکابر یکے بعد دیگرے آپ کے خلیفہ و نائب قرار پائے ؛ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے کمال کا یوں اظہار فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مشورہ لے کر اپنی روایتی نرمی کے ساتھ ان کی غلظت و شدت کو مخلوط کرتے رہے تاکہ اعتدال قائم رہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ خالص نرمی اور خالص درشتی و سختی دونوں بگاڑ کی موجب ہوا کرتی ہیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ طرز عمل اسوۂ نبوی کی پیروی میں اختیار کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق سے بھی مشورہ لیا کرتے تھے اور بعض امور میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بھی شرف نیابت سے سرفراز فرمایا کرتے تھے۔ اسی خصوصیت کی بنا پر آپ اوّلین خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرار پائے۔ مرتدین کے خلاف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جس شدت و غلظت کا ثبوت دیا تھا وہ فاروقی شدت و حدت سے بھی بڑھ کر تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا تھا:’’ اے نائب رسول! لوگوں پر رحم کیجیے۔‘‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ کس بات پر رحم کروں آیا کسی جھوٹی بات پر یا کسی خود ساختہ شعر پر۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم لومڑی کی طرح بزدل تھے آپ کی حوصلہ افزائی نے ہمیں شیر بنا دیا۔‘‘ جہاں تک حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ذات کا تعلق ہے آپ بذات خود سخت گیر تھے۔ آپ کا کمال یہ ہے کہ آپ نرم طبع صحابہ سے مشورہ لے کر اعتدال کو قائم رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح ، سعد بن ابی وقاص ، ابو عبید ثقفی ،نعمان بن مقرن اور سعید بن عامر رضی اللہ عنہم جیسے اہل صلاح و زہد جو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جیسے صحابہ سے بھی بڑے عابد و زاہد تھے آپ کے مشیر تھے۔ شوریٰ کا معاملہ بھی اسی قبیل میں شامل ہے جن معاملات میں اﷲ و رسول کا حکم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم نہیں ہوا کرتا تھا آپ ان میں صحابہ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔اصل بات یہ ہے کہ شرعی نصوص جامع کلمات، قضا یا کلیہ اور قواعد عامہ
Flag Counter