Maktaba Wahhabi

479 - 702
دوسرا مستحق نہیں ہے۔اور کسی ایک کو خاص طور پر متعین نہ کیااس خوف سے کہ کہیں آپ سے کوتاہی نہ ہوجائے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان پر واجب کیا ہے کہ حسب الامکان مصلحت پر عمل پیرا رہے ۔ پس آپ کافعل انتہائی مصلحت پر مبنی تھا۔ آپ کا خیال تھا کہ کچھ معاملات ضرور ایسے ہوتے ہیں کہ جن کاختم کرنایا بجا لانا ممکن نہیں ہوتا ؛ تو ایسے افعال تکلیف شرعی کے حکم میں داخل نہیں ہوتے۔اورمعاملہ ایسے ہی تھا جیسے آپ نے سوچا تھا۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا مبنی بر مصلحت تھا، کیوں کہ آپ ہر اعتبار سے اس کے مستحق تھے اورجملہ کمالات سے بہر ور تھے۔[ بعد میں ہر عاقل نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کی داد دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فعل بھی مصلحت سے عاری نہ تھا]۔ آپ کے نزدیک وہ چھ حضرات صفات و کمالات میں ایک دوسرے کے لگ بھگ تھے۔ اس لیے آپ کسی کو بھی ترجیح نہ دے سکے۔ ہر شخص میں ایک ایسی انفرادی فضیلت تھی جو دوسرے میں نہ تھی، بنا بریں زہد و ورع کے تقاضا سے آپ نے کسی کی تعیین نہ کی اور امکانی حد تک امت کی مصلحت کو پیش نظر رکھا۔اور امکان تھا کہ کسی ایک کو متعین کرنے کسی صورت میں کچھ اختلاف پیدا ہوسکتا ہے ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی طبیعت کو ایسا ہی بنایا بھلے وہ کتنے ہی بڑے اولیاء اللہ اور متقی ہی کیوں نہ ہوں ۔ ان چھ حضرات نے بالاتفاق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کردیا ۔ آپ کے انتخاب میں مصلحت زیادہ اور فساد کم تھا۔ واجب بھی یہی ہے کہ ایسے شخص کو منصب خلافت پر فائز کیا جائے جس کی مصلحت فساد پر غالب ہو۔عمر رضی اللہ عنہ خوف محسوس کرتے تھے کہ کہیں وہ لوگوں پر کوئی ایسی بات نہ مسلط کردیں جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔اور آپ یہ سمجھتے تھے کہ اگر انہوں نے اپنے اختیار سے کسی ایک کی بیعت کرلی تو مصلحت پوری ہوجائے گی۔یہی آپ کی زندگی اور موت کے مابین احوال کا فرق تھا۔ زندگی میں آپ خود خلیفہ تھے ۔ آپ پر واجب ہوتا تھا کہ اس کو مسلمانوں پر والی بنائیں جو ان کے نظام و امور کے لیے زیادہ مناسب ہو۔ تو آپ ایسے ہی کرتے رہے ۔اور مرنے کے بعد آپ پر کوئی چیز واجب نہیں تھی ۔ اس لیے کہ یہ ممکن تھا کہ مسلمان اپنے میں سے کسی مثالی انسان کی اتباع پر جمع ہوجائیں [او راسے اپنا خلیفہ منتخب کرلیں ]۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آثار سے معلوم ہوگیا تھا کہ آپ کے بعد لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اطاعت پر جمع ہوجائیں گے؛ تو آپ نے ارادہ کرنے کے باوجود عہد نامہ تحریر نہ کیا۔[[ بروایت صحیحہ آپ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر کردوں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو مجھ سے افضل تھے ایسا کیا تھا اور اگر کسی کو خلیفہ نہ بناؤں تو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ میرے سامنے موجود ہے۔‘‘]] (البخاری ؛حدیث۷۲۱۸)۔ خلیفہ کے لیے شرعاً ضروری نہیں کہ وہ اپنی موت کے بعد کسی کو خلیفہ مقرر کردے۔ یہی وجہ ہے کہ فاروق اعظم نے کسی واجب کو ترک نہین کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ سے کسی متعین انسان کو خلیفہ مقرر کرنے کے بار میں تکرار کیا گیا؛اور آپ سے کہا گیا:’’ اگر آپ ان میں سے کسی کو متعین کردیتے ؟ توآپ نے فرمایا: ’’ بیشک اللہ تعالیٰ اپنے دین کو اس خلافت کو ضائع نہیں کرے گا اور نہ ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین
Flag Counter