Maktaba Wahhabi

488 - 702
کہ]آپ نے شوری کے ارکان میں کمی کرکے چار آدمیوں کی ایک کمیٹی بنائی کہ خلیفہ ان میں سے ایک آدمی ہو گا۔ پھر تین آدمی مقرر کیے اور پھر ایک شخص کو یہ اختیار دے دیا۔اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو یہ اختیار دے دیا۔ حالانکہ اس سے پہلے آپ کی کمزوری اور کوتاہی بیان کر چکے تھے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب ]: یہ کہ جو شخص نقلی دلائل سے احتجاج کررہا ہو، اسے چاہیے کہ کسی نقلی دلیل سے اسے ثابت کرے ۔ جب قائل یہ بات کہہ دے کہ اس روایت کی سند معلوم نہیں ہے ؛ تو وہ روایت اس پر حجت نہیں ہوسکتی۔ بخاری میں یہ واقعہ مذکور ہے [1] مگر اس میں ایسی کوئی بات مذکور نہیں ۔ بلکہ اس میں جو کچھ لکھا ہے وہ اس کے برعکس ہے اور وہ یہ ہے کہ ان چھ حضرات نے یہ معاملہ تین اشخاص کو تفویض کر دیا تھا، پھرتینوں نے مل کر عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو یہ اختیار دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اس میں کوئی دخل نہیں ۔ صحیح بخاری میں حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ زخمی کردیے گئے تو آپ نے فرمایا: ’’بیشک لوگ کہتے ہیں : کسی کو خلیفہ بنا دیں ۔ میرے نزدیک ان لوگوں سے زیادہ کوئی خلافت کا مستحق نہیں ہے جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال کے وقت راضی تھے۔ پھر آپ نے حضرت علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم کا نام لیا ؛اور فرمایا : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تمہارے پاس حاضر رہا کریں گے مگر خلافت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ آپ نے یہ جملہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی تسلی کے لیے کہا ۔اور فرمایا کہ:’’ اگر خلافت سعد رضی اللہ عنہ کو مل جائے تو وہ حقیقتاً اس کے حقدار ہیں ؛ ورنہ جو شخص بھی خلیفہ بنے وہ ان سے امور خلافت میں مدد لے۔ میں نے ان کو ناقابلیت اور خیانت کی بنا پر معزول نہیں کیا تھا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ: میرے بعد جو خلیفہ مقرر ہو اس کو وصیت کرتا ہوں کہ مہاجرین کا اولین حق سمجھے۔ ان کی عزت کی نگہداشت کرے۔اس کو انصار کے ساتھ بھلائی کی بھی وصیت کرتا ہوں جو دارالہجرت دارالایمان میں مہاجرین سے پہلے سے مقیم ہیں ۔ خلیفہ کو چاہیے کہ ان میں سے نیک لوگوں کی نیکوکاری کو بنظر استحسان دیکھے اور ان کے خطا کار لوگوں کی خطا سے درگزر کرے۔ نیز میں اس کو تمام شہروں کے مسلمانوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں ۔ اس لیے کہ وہ لوگ اسلام کی پشت وپناہ ہیں وہی مال غنیمت حاصل کرنے والے اور دشمن کو تباہ کرنے والے ہیں ۔ اور وصیت کرتا ہوں کہ ان سے ان کی رضا مندی سے اس قدر مال لیا جائے جو ان کی ضروریات زندگی سے زائد ہو۔میں اس کو اعراب کے ساتھ نیکی کرنے کی وصیت کرتا ہوں اس لیے کہ وہی اصل عرب اور مادہ اسلام ہیں اور ان کی (ضروریات سے)زائد مال لے جائیں اور ان کے فقراء پر تقسیم کر دیں ۔ میں اس کو اللہ تعالیٰ اور رسول کے ذمہ کی وصیت کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ ان کا عہد پورا کیا جائے اور ان کی حمایت میں پر زور جنگ کی جائے، اور ان سے ان کی طاقت سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔[2]
Flag Counter