Maktaba Wahhabi

49 - 702
ہے ۔ اس راوی پر رافضی ہونے کی تہمت ہے ۔ اس لیے کہ عام طور پر جو قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں تک پہنچا ہے وہ اہل بیت کے علاوہ دوسرے لوگوں کے ذریعہ سے پہنچا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں اسلام کی دعوت دینے کے لیے بھیجا۔آپ انصار کو قرآن کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ اورانہیں دین کے مسائل سمجھاتے۔آپ نے حضرت علاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہ کو بحرین میں بھیجا؛ آپ بھی وہاں یہی فرائض سر انجام دیتے تھے۔ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا ۔ عتاب بن اسید اموی رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ پر گورنر بنایا۔توپھر یہ قول کہاں گیا کہ : میری طرف سے یہ پیغام میرے اہل بیت میں سے ہی کوئی پہنچاسکتا ہے ؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت بھی باطل ہے؛ اس میں کئی ایک جھوٹ ہیں ۔مثلاً یہ کہنا کہ ہر جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ہوا کرتا تھا ۔‘‘ اس لیے کہ غزوۂ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم بردار بالاتفاق مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ تھے۔[1] اس پر تمام لوگوں کااتفاق ہے۔ اور فتح مکہ کے دن علم رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔[2]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا کہ حجون میں جاکر جھنڈا گاڑ دیں ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا: کیا آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ پرجھنڈا گاڑنے کا حکم دیا تھا ۔‘‘[3]یہ روایت صحیح بخاری میں موجود ہے ۔ ایسے ہی رافضی مصنف کا دعوی کہ : ’’ غزوہ حنین کے موقع پر آپ ہی ثابت قدم رہے ۔‘‘ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ غزوہ حنین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تر آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور ابوسفیان بن حارث رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپ کی خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے؛ جبکہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے سواری کی رکاب پکڑی ہوئی تھی ۔[4] اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: اصحاب سمرہ کو آواز دو۔ آپ فرماتے ہیں : میں نے اونچی آواز میں چیخ کر پکارا : اے اصحاب سمرہ تم کہاں ہو؟ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اللہ کی قسم جس وقت انہوں نے یہ آواز سنی تو وہ اس طرح پلٹے جس طرح کہ گائے
Flag Counter