Maktaba Wahhabi

493 - 702
گریزاں رہے]۔ اگر یہ کہا جائے کہ : آپ خوف محسوس کرتے تھے کہ کہیں لوگ کہنے لگیں گے : اس نے توبہ کرلی اور رجوع کرلیا؛ جیسا کہ ابو طالب کو موت کے وقت اسلام قبول کرنے میں عار دلانے کا خوف محسوس ہونے لگاتھا ۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا: آپ کے لیے ممکن تھا کہ توبہ کا اظہار کیے بغیر ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنادیں ۔ اس لیے کہ اگر آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے کو خلیفہ بناتے تو لوگ آپ کی بات سنتے اور اطاعت کرتے ۔ اور اس میں کوئی بھی اختلاف نہ کرتا ۔ کبھی انسان کے ذمہ میں ایسے مظالم ہوتے ہیں جنہیں وہ اس طرح سے ادا کردیتا ہے کہ محسوس بھی نہیں ہوپاتا کہ وہ ظالم ہے۔مرتے وقت کسی کے لیے ایسی ایسی وصیت کرجاتا ہے۔اور اسے وصیت میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ وصیت یا تو اس پر واجب حق ہوتا ہے یا خوف کی وجہ سے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا جس پرانہیں مرنے کے بعد خوف محسوس ہوتا۔ اس لیے کہ آپ نے اپنے اقارب کو امر خلافت سے پہلے ہی سے دور رکھا تھا۔ اور آپ کو یہ بھی پتہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ عادل اور متقی ہیں ؛ ان کے اہل خانہ پر کبھی بھی ظلم نہیں کریں گے۔ اگر بالفرض مان لیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں سے انتقام لیتے جنہوں نے پہلے پہل آپ کی بیعت نہیں کی ؛ تو پھر بھی بنو عدی اس معاملہ میں لوگوں سے سب سے زیادہ دور تھے۔ اس لیے کہ نہ ہی ان کی تعداد زیادہ تھی؛ اور نہ ہی انہیں کوئی شان و شوکت تھی کوئی غلبہ بھی حاصل نہیں تھا۔ اور یہ سارے لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے تھے اور آپ کی تعظیم کیا کرتے تھے۔ ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ بغض رکھتے ہوں ؛ یا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا ہو۔ ان میں سے کسی ایک انسان کو بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہ ہی جاہلیت میں قتل کیا اور نہ ہی اسلام میں ۔ ایسے ہی بنو تمیم سارے کے سارے آپ سے محبت رکھتے تھے اور آپ ان سے محبت رکھتے تھے۔ ان میں سے بھی کسی ایک انسان کو بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہ ہی جاہلیت میں قتل کیا اور نہ ہی اسلام میں ۔ دوسری بات:....ان سے کہا جائے گا کہ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عادت رہی ہے کہ جب آپ سے کسی بات میں بحث کی جاتی تو آپ حق کی طرف رجوع کرلیا کرتے تھے۔اور ایسے کئی ایک واقعات ہیں جب آپ کے لیے حق واضح ہوگیا تو آپ نے حق بات کی طرف رجوع کرلیا ۔ یہ رجوع کرنا ہی توبہ ہے۔آپ فرماتے تھے : مرد سے غلطی ہوگئی اور عورت نے درستگی کو پالیا ۔‘‘ اور آپ توبہ کی تجدید کرتے رہتے تھے ؛ اس لیے کہ آپ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرنے والا ہے۔ پوری زندگی آپ کا یہی وظیفہ رہا۔ حالانکہ زمین پر آپ کا سکہ چل رہا تھا ۔تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ آپ موت کے وقت توبہ نہ کرتے ؟ آپ کے لیے یہ بھی ممکن تھا کہ آپ کوئی حیلہ اختیار کرکے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنادیتے ۔ اور کسی قابل مذمت چیز کو ظاہر بھی نہ ہونے دیتے ۔ جیسا کہ آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے حیلہ اختیار کیا تھا۔ اگر آپ یہ جانتے ہوتے کہ
Flag Counter