Maktaba Wahhabi

495 - 702
’’خصومات کا معاملہ بڑا دشوار ہوتا ہے اور شیطان ان میں آدھمکتا ہے۔‘‘ اس محاکمہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابن جعفر رضی اللہ عنہ کو اپنا وکیل بنا کر بھیجا تھا۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور دیگر فقہاء نے اس سے احتجاج کیا ہے کہ فریق مخالف کی مرضی کے بغیر خصومات میں وکیل بنانا جائز ہے۔ امام شافعی اور اصحاب احمد بن حنبل رحمہم اللہ اسی کے قائل ہیں ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا بھی ایک قول یہی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے رفقاء جب واپس آئے تو ماجرا کہہ سنایا۔ آپ نے فرمایا: تمھیں معلوم ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہمارا ساتھ کیوں دیا؟ پھر خود ہی اس کی وجہ بتائی کہ ہم(بنوہاشم) اور بنو امیہ دونوں بنی عبد مناف سے تعلق رکھتے ہیں ۔‘‘ ایک مرتبہ ایک محاکمہ پیش آیا جس میں ایک قاضی القضاۃ نے ہم سے مشورہ لینا چاہا۔ انھوں نے ایک کتاب پیش کی جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس محاکمہ کا ذکر تھا وہ’’ المنافیہ‘‘ کا مطلب نہ سمجھ سکے تومیں نے انھیں اس کا مطلب سمجھایا کہ سب بنو عبد مناف عہد رسالت اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکی خلافت میں متحد تھے۔ ان میں اختلاف بہت بعد میں واقع ہوا۔ ایسا اس وقت ہواجب ان کے مابین امارت کا جھگڑاشروع ہوا۔جیسا کہ بنو ہاشم عہد رسالت مآب میں ؛ عہد خلفاء راشدین میں اور بنو امیہ کے دور میں ایک ہی چیز تھے ۔ ان کے مابین اس وقت اختلاف واقع ہوا جب بنو عباس حکمران بن گئے اور ان کے اور بعض بنو ابی طالب کے درمیان تفریق اور اختلاف پیدا ہوگیا۔ یہ سب لوگوں کی عادت ہے۔ جب تک لوگوں کے مابین مال ؛ جاہ و مرتبہ یا دیگر کوئی ایسی جھگڑا پیداکرنے والی چیز نہیں ہوتی تو سارے متفق ہوتے ہیں ۔ اور اگر ان کا کوئی دشمن ہوتا ہے تو سارے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ اور جب خود انہیں اختیار مل جاتا ہے تو پھر آپس میں جھگڑنے لگتے ہیں ۔ بنو ہاشم آل علی اور آل عباس بنو امیہ کے دور میں متفق تھے ۔ ان کے مابین کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ جب ان میں ایسے لوگ سامنے آئے جو رضائے آل محمد کی طرف دعوت دینے لگے ؛توبعض علویوں کے دل میں بھی اقتدار کی طمع انگڑائیاں لینے لگی۔ جعفر بن محمد اور دوسرے لوگ جانتے تھے کہ خلافت صرف آل عباس میں ہی چل سکتی ہے۔ جب انہوں نے اموی حکومت کا خاتمہ کردیا اور ہاشمیوں کی حکومت قائم ہوگئی اور سفاح نے ایک شہر بھی بسایا جس کا نام ’’ الہاشمیہ ‘‘ رکھا۔پھر جب منصور خلیفہ بنا تو ہاشمیوں کے درمیان جھگڑا شروع ہوگیا۔اس وقت محمد اور ابراہیم پسران عبد اللہ بن حسن نے منصور کے خلاف خروج کیا۔ اور منصور ان کے مقابلہ کے لیے لشکر لے کر نکلا۔ ایک بہت بڑا فتنہ برپا ہوا ۔ جس میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد قتل ہوئی۔ پھر عباسیوں کا آپس میں اختلاف ہوا ؛ جیسا کہ امین اور مأمون کے اور دوسرے عباسیوں کے مابین اختلاف مشہور ہے۔ایسے واقعات کا پیش آنا عام عادت کے مطابق ہے۔ پھرحضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما نے اپنی مرضی سے بلا جبر و اکراہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو انتخاب امام کا اختیار تفویض کردیا تھا۔[اوراس کے بعد جوکچھ ہوا وہ ان اصحاب کی مرضی اور اتفاق سے ہوا]۔
Flag Counter