Maktaba Wahhabi

501 - 702
جو اس امت میں منقولات سے نابلد محض علم الآثار سے یک سر بیگانہ اور محال و متناقض جھوٹ کے پجاری ہیں ۔ جس کو ایک چوپایہ ہی باور کر سکتا ہے تو یہ ایک الگ بات ہے۔ روافض دیہات کے ان افسانہ گو لوگوں کی مانند ہیں جو دیہاتی عوام کو جھوٹی کہانیاں سناتے ہیں اورپہاڑی و جنگلی باشندے اس پر سر دھنتے ہیں ۔یہ پھر ان شہروں کے رہنے والے ان کی بات مان سکتے ہیں جہاں پر جھوٹوں کا دور دورہ او راہل نام کی کوئی چیز وہاں پر نہ ہو[جوان کے جھوٹوں کا بھانڈا پھوڑسکے ]۔ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو ان کی گمراہیوں کاشکار ہوجاتے ہیں ۔ رافضی مذہب کے بارے میں کبھی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ یہ کسی ایسے بڑے شہر میں استقرار پکڑے جہاں پر اہل علم و دین [اہل حق] مسلمان موجود ہوں ۔ اس مذہب کو دور دراز کے پہاڑیوں ؛ دیہاتیوں اور جنگلیوں میں ہی پذیرائی ہوسکتی ہے۔ یا پھر کسی ایسے پلید شہر میں جہاں کے لوگوں کے من خباثت سے بھر پور ہوں ۔ اور لوگ جھوٹ کے اس قدر دل دادہ ہوں کہ اپنے اندر کچھ چھپاتے ہوں اور اظہار کسی اور چیز کا کرتے ہوں ۔ قاہرہ کا شہر جب عبیدی حکمرانوں کے ساتھ تھا تو یہ لوگ اپنے آپ کو شیعہ ظاہر کرتے تھے۔لیکن شیعیت سے اچھی طرح واقف نہیں تھے ۔ انہوں نے وہاں پر اہل علم ودین کے اپنا دین ظاہرکرنے پر پابندی لگارکھی تھی۔ مگر اس کے باوجود باقی شہروں کے مسلمانوں سے ڈرتے رہتے تھے۔جب کوئی اجنبی ان کے پاس آجاتا تو یہ اس کے سامنے اپنا عقیدہ ظاہر نہ ہونے دیتے ۔اس کے ساتھ مداہنت سے پیش آتے اور اس مہمان سے ایسے ڈرتے رہتے جیسے کسی بادشاہ سے ڈرتے ہوں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ جھوٹے اور افتراء پردازی کرنے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُہُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَ ذِلَّۃٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ﴾ [الأعراف۱۵۲] ’’ بیشک جن لوگوں نے بچھڑا پرستی کی ہے ان پر بہت جلد ان کے رب کی طرف سے غضب اور ذلت اس دنیاوی زندگی ہی میں پڑے گی اور ہم جھوٹی تہمت لگانے والوں کو ایسی سزا دیا کرتے ہیں ۔‘‘ مفسر ابو قلابہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ اس امت میں سے بھی قیامت تک کے لیے ہر جھوٹ گھڑنے والے کی یہی سزا ہے۔ [اعتراض]:شیعہ مصنف[حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ] لکھتا ہے: ’’اور حکم دیا کہ جو ان چار کی مخالفت کرے اسے قتل کردیا جائے۔ اور جن تین لوگوں کے گروہ میں حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ موجود ہوں ان کے مخالفین کو قتل کرنے کا حکم دیا۔‘‘ [جواب]:یہ محض جھوٹ ہے ۔پھر اگر بالفرض تسلیم بھی کرلیا جائے کہ آپ نے یہ فرمایا ہے تب بھی آپ نے دین کے خلاف کچھ بھی نہیں کہا۔بلکہ آپ نے فتنہ ختم کرنے کی نیت سے ایسے کہا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تمہارے پاس کوئی آئے اور تمہارا نظام ایک آدمی کے ہاتھ میں ہو‘ اوروہ تمہاری جماعت میں تفریق
Flag Counter