Maktaba Wahhabi

538 - 702
یہ مسئلہ تفصیل اور تحقیق کا محتاج ہے۔ جس کا موقعہ یہ نہیں ۔ اس لیے کہ یہاں پر ان چیزوں کا بیان مقصود ہے جن نیکیوں سے گناہ مٹ جاتے ہیں ۔ اور یہ کہ انسان کے دل میں موجود ایمان اور تقوی کے اعتبار سے نیکیوں میں تفاضل ہوتا ہے۔ ا سے معلوم ہوا کہ جو لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کم مرتبہ کے ہیں ؛ ان کے گناہ بھی نیکیوں کی وجہ سے مٹ جاتے ہیں ؛ بالکل ویسے ہی جیسے ان میں سے کسی ایک کی مذمت گناہ کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ پس پھر صحابہ کرام کے متعلق کیا خیا ل ہے ؟ چوتھا سبب: مؤمنین کي دعا: میت پر مسلمانوں کا نماز جنازہ پڑھنا؛ اور اس کے لیے مغفرت کی دعا کرنا گناہ بخشے جانے کے اسباب میں سے ایک ہے۔ ایسے ہی نماز جنازہ کے علاوہ دعا کرنا اور اس میت کے لیے استغفار کرنا بھی مغفرت کے اسباب میں سے ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے لوگ آج تک دعائیں کرتے چلے آرہے ہیں ۔ پانچواں سبب:نبي کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کي دعا اور استغفار:(اپنی زندگی میں اور موت کے بعد): جیسا کہ روزِ قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ؛ اس لیے کہ آپ کی دعا اور شفاعت آپکی حیات و ممات میں سب سے خاص ہے۔ چھٹا سبب:نیک اعمال کا ہدیہ: مثال کے طور پر میت کی طرف سے صدقہ کرنا؛اس کی طرف سے حج کرنا ‘ اور روزے رکھنا ۔حدیث میں یہ ثابت ہے کہ ان اعمال کا ثواب میت کو پہنچتا ہے ‘ اور اس سے انہیں فائدہ ہوتا ہے۔ یہ اولاد کی دعا کے علاوہ ہے ۔ اس لیے کہ اولاد خود انسان کے اعمال میں شمار ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب انسان مر جاتا ہے تو تین اعمال کے علاوہ تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے نفع اٹھایا جائے یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔‘‘[1] انسان کی اولاد بھی اس کی کمائی میں سے ہے ۔ ان کی دعا اس انسان کے اعمال میں شمار ہوتی ہے۔بخلاف اولاد کے علاوہ دوسرے لوگوں کی دعا کے۔ اس کا شمار اس کے اپنے اعمال میں تو نہیں ہوتا؛ لیکن اللہ تعالیٰ اس سے نفع دیتا ہے۔ ساتواں سبب:دنیاوي مصائب: جن سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو ختم کردیتے ہیں ۔صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کسی مومن آدمی کو جب بھی کوئی تکلیف یا ایذا یا کوئی بیماری یا رنج پہنچے؛ یہاں تک کہ اگر اسے کوئی فکر ہی لاحق ہویا اگر کوئی کانٹا چبھتا ہے تو اللہ اس کے بدلہ میں بھی اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔‘‘ [صحیح مسلم:ج۳: ح۲۰۶۴] صحیحین میں ہے: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’ مومن کی مثال کھیتی کے پودوں کی طرح ہے کہ ہوا کبھی اس کو ادھر ادھر جھکا دیتی ہے اور کبھی اس کو سیدھا کردیتی ہے، اور منافق کی مثال صنوبر درخت کی طرح ہے کہ وہ ہمیشہ سیدھا قائم ودائم رہتا ہے یہاں تک کہ ایک ہی دفعہ اکھڑجاتا ہے ۔‘‘[2] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ معانی تواتر کے ساتھ ثابت ہیں ؛ اور اس بہت ساری احادیث اس بارے میں وارد ہوئی ہیں
Flag Counter