Maktaba Wahhabi

558 - 702
عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے اور بنا بر اجتہاد انھیں تعذیر کاحق حاصل تھا خواہ یہ اجتہاد صحیح ہو یا غلط]۔اس سے ان حضرات میں سے کسی ایک کی شان میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اور ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ تینوں حضرات [ان شاء اللہ ] جنت میں ہوں گے۔اور یہ حضرات اللہ تعالیٰ کے بڑے متقی ولیوں میں سے ہیں ۔ ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں کہ کبھی ولی اللہ سے کوئی غلطی یا گناہ سر زد ہوجاتا ہے جس پر وہ شرعاً سزا کا مستحق ہوتا ہے تو پھر تعزیر کیوں نہیں ہوسکتی ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابیّ بن کعب رضی اللہ عنہ کواس وقت درّہ سے مارا جب دیکھا کہ لوگ آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں ۔ انہوں نے پوچھا: اے امیر المؤمنین! یہ کیا کررہے ہیں ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ ایسے چلنامتبوع کے لیے باعث فتنہ اور تابع کی رسوائی کا موجب ہے۔‘‘ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو کچھ ادب سکھایا تھا؛ یا تو اس تأدیب میں حق پر تھے ؛ اس لیے کہ آپ کو ایسا کرنے کا استحقاق حاصل تھا۔ یا پھر جس بات پر ان لوگوں کی تعزیر کی ہوگی ؛ اس پر انہوں نے پہلے سے توبہ کرلی ہوگی۔ یا اس تعزیر کی وجہ سے ان کا کفارہ ہوگیا ہوگا؛ یا دیگر مصائب و آلام ان خطاؤوں کا کفارہ بن گئے ہوں گے۔ یا کوئی اور ایسا سبب پیش آگیا ہوگا۔ یا تو پھر یہ کہا جائے کہ : جن لوگوں کی تعزیر کی گئی وہ بالکل مظلوم تھے۔تو جیسے آپ ان حضرات کے بارے میں کوئی بات کہیں گے وہی بات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بھی عذر ہوگی۔اس لیے کہ بلا ریب آپ ان لوگوں سے افضل تھے۔ اور آپ رحمت و مغفرت کے زیادہ مستحق تھے۔ بسا اوقات امام سزا دینے میں اجتہاد سے کام لیتا ہے ؛ اس پر اسے ثواب بھی ملتا ہے۔مجتہدین اپنے اجتہاد کی وجہ سے جو کام کرتے ہیں ‘اس پر انہیں کوئی گناہ نہیں ہوتا۔بلکہ ان کے اجتہاد کی وجہ سے انہیں ثواب ملتا ہے ۔جیسا کہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ پر گواہی دی تھی۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کا شمار نیک و صالحین مسلمانوں میں سے ہوتا ہے ۔ وہ اپنے اس گواہی دینے میں اجر و ثواب کی امید رکھتے تھے۔اور ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ حد قائم کرنے میں اجر و ثواب کے مستحق تھے۔ تو اس میں کوئی مانع نہیں ہوسکتا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو کچھ سلوک حضرت عبد اللہ بن مسعود اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہماسے کیا؛ وہ بھی اسی باب سے ہو۔ جب ایک دوسرے کو قتل کرنے والوں میں سے ہر ایک مجتہد اور اس کے گناہ و خطائیں بخشا گیا ہوتا ہے تو پھر آپس میں اختلاف کرنے والے بھی بدرجہ اولی حق پر ہوسکتے ہیں ۔ یاتو پھر یہ کہا جائے کہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی مجتہد تھے ؛ اور دوسرے صحابہ بھی اجتہاد پر تھے۔ایسے واقعات بہت زیادہ پیش آتے ہیں ۔کوئی انسان کوئی کام اپنے اجتہاد سے کرتا ہے ۔ اور مسلمان حکمران کا خیال ہوتاہے کہ اس حرکت پر اسے لازمی سزا ملنی چاہیے۔ جیسا کہ کسی ظلم کرنے والے سرکش کو سزا ملتی ہے۔ بھلے وہ حاکم کے پاس پیش ہونے کے بعد توبہ ہی کیوں نہ کر لے ۔ بیشک زانی ؛ شرابی اور چور جب عدالت میں پیش ہونے اور ان پر جرم ثابت ہونے کے بعد توبہ
Flag Counter