Maktaba Wahhabi

567 - 702
شاید ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہمانے اس لیے اسے واپس نہیں بلایاکہ اس نے خود اس کا مطالبہ ہی نہ کیا ہو۔اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا تو آپ نے اس کا مطالبہ پورا کردیا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکے لیے اس کی توبہ واضح نہ ہوئی ہو اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے توبہ واضح ہوگئی [تو آپ نے اسے واپس بلالیا]۔ آخر میں انتہاء درجہ کی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آپ سے اجتہادی غلطی یا گناہ کا کام سر زد ہوگیا ہو تو اس بارے میں مفصل کلام پہلے گزر چکا ہے ۔ جہاں تک مروان کو کاتب بنانے پر اعتراض ہے تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مروان کا اس میں کوئی گناہ نہیں تھا۔اس لیے کہ مروان اس وقت چھوٹا تھا اس وقت تک شرعی احکام کا مکلف نہیں ٹھہرا تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اس وقت تک مروان بلوغت کی عمر تک نہیں پہنچا تھا ۔اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔بلکہ اس وقت تک اس کی زیادہ سے زیادہ عمر دس سال یا اس کے قریب قریب ہوسکتی ہے۔[مروان میں خامیاں ہو سکتی ہیں ]، مگر اس کے ظاہراً و باطناً مسلمان ہونے میں شبہ نہیں وہ قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتااور اس پر عمل پیرا رہتا تھا؛ دین کی فقہ و سمجھ حاصل کرتا۔ اس فتنہ [قتل عثمان رضی اللہ عنہ ] سے پہلے اس کا کوئی ایسا گناہ معروف نہیں تھا جس کی وجہ سے اس پر اعتراض کیا جاسکے۔ لہٰذا یہ اعتراض لغو ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے کاتب کیوں مقرر کیا۔ لیکن جب فتنہ پھیلا تو اس کا شکاروہ لوگ بھی ہوگئے جو مروان سے کئی درجہ افضل و بہتر تھے۔مروان ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہوں ۔جبکہ اس کے باپ حکم کا شمار بھی طلقاء میں ہوتاہے۔ اور طلقاء میں سے اکثر لوگ بہت اچھے مسلمان ثابت ہوئے ہیں ۔جبکہ بعض کی سیرت محل نظر ہے۔[لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ] صرف ایسے گناہ کی وجہ سے باطن میں نفاق کا ہونا لازم نہیں آتا جس گناہ پر تعزیر ہوسکتی ہو۔ منافقین پر ظاہری طور پر اسلامی احکام جاری ہوتے ہیں ۔فتح مکہ کے بعد طلقاء میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا اظہار کرتا ہو۔ بلکہ وہ [اسلامی اصولوں کے مطابق ] وراثت پاتے تھے اوروراثت چھوڑتے تھے۔ ان پر نماز جنازہ پڑھی جاتی تھی۔ انہیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جاتا تھا۔ اور ان پر اسلامی احکام ایسے ہی جاری ہوتے تھے جیسے دوسرے مسلمانو ں پر جاری ہوتے تھے۔ اوس اور خزرج کی ایک جماعت کا نفاق صاف واضح اور معلوم شدہ تھا ؛ جیسے عبد اللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے امثال وہمنوا۔ مگر اس کے باوجود کبھی کبھار مسلمان اس کے لیے تعصب کرجاتے تھے۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن ابی کے بارے میں تعصب کا اظہار کیا تھا۔ اورانہوں نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’ اللہ کی قسم ! تم اسے قتل نہیں کرو گے اور نہ ہی ایسا کرنے پر قدرت رکھتے ہو۔‘‘ اگرچہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا ایسا کہنا بھی غلطی تھی ؛ لیکن اس غلطی کی وجہ سے آپ اسلام سے خارج نہیں ہوئے ۔ بلکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ اہل جنت میں سے ہیں ۔آپ کا شمار سابقین اولین انصار میں سے ہوتا ہے۔ توپھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر
Flag Counter