Maktaba Wahhabi

575 - 702
جب ہرمزان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قتل پر مدد کرنے والوں میں سے تھا تو اس کا شمار زمین میں فساد پھیلانے والے اور اعلان جنگ کرنے والوں میں سے ہوا؛ اس وجہ سے اس کو قتل کرنا واجب ٹھہرا۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ قاتل ہرمزان معصوم الدم تھا۔تاہم عبید اﷲ نے تأویل کی بنا پر اس کے قتل کو حلال تصور کیاتھا۔ اس لیے کہ اس کا شبہ صاف ظاہر تھا۔پس اس شبہ کی بنا پرقاتل کو قتل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جس طرح حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو قتل کردیا تھا جس نے لا الہ الا اللّٰہ پڑھا تھا؛ آپ یہ سمجھے تھے کہ اس کلمہ کے پڑھنے سے یہ قتل سے نہیں بچ سکتا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی زبانی تعزیر کی ؛ اور ان کو قتل نہیں کیا اس لیے کہ آپ متأول تھے۔[1] جس کو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ؛ وہ قتل سے پہلے مباح الدم تھا ؛ لیکن اس کے کلمہ پڑھ لینے کی وجہ سے اس کے معصوم الدم ہونے میں شک ہوگیا تھا۔ جب عبید اللہ بن عمر متأول تھے ؛ اور ان کا اعتقاد تھا کہ ہرمزان نے ان کے والد کے قتل میں مدد کی ہے ؛ اور ان کے لیے اب جائز ہوگیا ہے کہ وہ اسے قتل کردیں ۔اس شبہ کی وجہ سے مجتہد کے لیے جائز ہوجاتا ہے کہ وہ اسے قصاص میں مانع قرار دے ۔اس لیے کہ قصاص کے مسائل میں بہت سارے مسائل اجتہادی ہیں ۔ علاوہ ازیں ہرمزان کے خون کا مطالبہ کرنے والا بھی کوئی نہ تھا؛ بلکہ اس کے خون کا وارث حاکم ہی تھا۔جب ایسی صورت حال ہو تو حاکم وقت کو شرعاً اختیار حاصل ہے کہ قاتل کو معاف کردے یا اسے قتل کردے یا دیت وصول کرے؛تاکہ مسلمانوں کے حقوق ضائع نہ ہوں ۔ بنا بریں حضرت عثمان نے آل عمر رضی اللہ عنہ کو معاف کردیا اور ان سے دیت وصول نہ کی۔ جب اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے معاف کرکے عبید اﷲ کی جان بچالی تھی؛اورآپ کا یہ بھی خیال تھا کہ آل عمر کو بھی دیت کے قدر ادا کردیاجائے؛اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر تقریباً اسی ہزار قرض تھا۔اور انہوں نے حکم دیا تھا کہ یہ قرض ان کی اولاد کے اموال سے ادا کیا جائے۔ورنہ بنو عدی اور پھر قریش کے اموال سے یہ قرض ادا کیا جائے۔اس لیے کہ کسی انسان کے رشتہ دار ہی اس کی طرف سے کوئی بوجھ برداشت کرتے ہیں ۔دیت کا مطالبہ اگرچہ عبید اللہ نے کیا تھا؛ یا عبید اللہ کے دیگر عصبی رشتہ داروں نے کیا تھا۔ جب یہ مسئلہ قتل خطأ کا تھا؛یاپھر اس کے بدلہ میں معاملہ دیت پر آگیا تھا ۔اب معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قرض کا تھا ؛حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قرض ادا کرنے میں ان کے اہل خانہ کی مدد کی۔یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ان محاسن میں سے ہے جن پر آپ کی مدح کی جانی چاہیے نہ کہ مذمت ۔ ہم نے حاکم کے قتل کے بارے میں ائمہ کرام رحمہم اللہ کا اختلاف ذکر کیا ہے۔کیا یہ مسئلہ قتل زمین پر فساد پھیلانے کے باب سے تعلق رکھتا ہے کہ حاکم کے قاتل کو حتمی طور پر قتل ہی کیاجائے گا[اس میں دیت یا معافی کی کوئی گنجائش نہیں ] ۔جیسے
Flag Counter