Maktaba Wahhabi

583 - 702
۱۔ پہلا قول:....ہر شہر میں صرف ایک جمعہ اور ایک ہی عید ہوسکتی ہے۔ یہ امام مالک اور بعض اصحاب ابی حنیفہ کا قول ہے۔ رحمہم اللہ ۔ ان کا کہنا ہے کہ سنت یہی ہے۔ ۲۔ دوسرا قول:....ایک شہر میں عید کی نماز کئی جگہ پر ہوسکتی ہے بخلاف نماز جمعہ کے۔ یہ امام شافعی کاقول ہے؛ امام احمد سے بھی ایک قول میں یہی منقول ہے۔لیکن اس قول کے قائل کی دلیل یہ ہے کہ نمازعید کے لیے آذان اور اقامت اورعدد کی شرط نہیں جیسا کہ جمعہ کے لیے یہ شرائط ہیں ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ نماز جمعہ سفرو حضر میں پڑھی جاسکتی ہے۔یہ مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے ثابت سنت متواترہ کے خلاف ہے۔ ۳۔ تیسرا قول:....ایک ہی شہر میں ضرورت کے تحت دو جمعے پڑھنے جائز ہیں جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ضرورت کے تحت دو عیدیں پڑھیں تھیں ۔ یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مشہور مذہب ہے۔ اور اکثر اصحاب ابی حنیفہ رحمہ اللہ اسی پر قائم ہیں ؛ اوراصحاب امام شافعی رحمہ اللہ کے اکثر متاخرین لوگ اسی پر ہیں ۔ ان لوگوں کی دلیل حضرت امام علی رضی اللہ عنہ کا فعل ہے؛ اس لیے کہ آپ خلفاء راشدین میں سے ایک خلیفہ راشد ہیں ۔ ایسے ہی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے شہرکی تعریف اور حدود بندی و تعین کو جائز کہا ہے۔ اور یہ دلیل پیش کی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بصرہ میں ایسے کیا تھا؛ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا۔ اور ابن عباس بصرہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نائب تھے۔ امام بن حنبل رحمہ اللہ اور بہت سارے علمائے کرام رحمہم اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قائم کردہ سنت کی اتباع کرتے ہیں ۔ جیسا کہ بہت ساری لوگ حضرت عمرو عثمان رضی اللہ عنہماکی قائم کردہ سنت کی اتباع کرتے ہیں ۔ اور دوسرے علماء جیسے امام مالک و غیرہ رحمہم اللہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سنت کی اتباع نہیں کرتے۔ ان سب کا حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہماکی قائم کردہ سنت کی اتباع پر اتفاق ہے۔اب اگر حضرت عمرو عثمان رضی اللہ عنہماکی سنت پر نقدو جرح کرنا جائز ہے تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی یہی حال ہے؛ ان پر بطریق اولی قدح کرنا جائز ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فعل جائز تھا؛ کیونکہ آپ نے اپنے اجتہاد سے ایسے کیا تھا اور یہ ایسی سنت ہے جس کی اتباع کی جائے؛ تو پھر حضرت عمرو عثمان رضی اللہ عنہما نے جو کچھ کیا وہ بطریق اولیٰ اتباع کا مستحق ہے۔ اس باب میں یہ مسئلہ ویسے ہی ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا ؛ کہ بنو تغلب کے نصاری کے ساتھ کیا تھا کہ ان پر ٹیکس دوگنا کردیا تھا۔ یہ بات غور و کرکرنے والے کے لیے صاف ظاہر ہے بخلاف خوارج کے عقیدہ کے۔بلاشبہ ان کا عقیدہ تفسیر قرآن سے جہالت پر مبنی ۔ہے نیز ان میں گناہوں کی بہت زیادہ تعظیم پائی جاتی ہے۔ اور یہی حال وعیدیہ اور قدریہ کے عقیدہ کا بھی ہے جو کہ گناہوں کی تعظیم پر مبنی ہے۔ اور یہی حال مرجئہ کے عقیدہ کا بھی ہے۔ ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ اس آدمی سے کفر کی نفی کی جائے جس نے رسولوں کی تصدیق کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بدعتی مذاہب کے مؤسسین اور بڑوں میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہ وہ منافق اور زندیق ہے بخلاف رافضہ کے۔ ان کے بڑے منافق اور زندیق تھے۔حالانکہ ان
Flag Counter