Maktaba Wahhabi

603 - 702
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسامہ سے اجازت طلب کی کہ عمر رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں رہنے دیا جائے؛ وہاں پر ان کی سخت ضرورت ہے۔ تو آپ نے اس کی اجازت دیدی۔ حالانکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کے لیے سب سے زیادہ حریص انسان حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔جمہور صحابہ نے دشمن کے خوف کے اندیشہ سے یہ مشورہ دیا تھا کہ جیش اسامہ کو ان حالات میں روانہ نہ کیا جائے۔ لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرمایا: ’’ اللہ کی قسم ! میں اس جھنڈے کو کبھی نہیں کھول سکتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہو۔‘‘ جیش اسامہ کی روانگی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع کے ایام میں سب سے بڑے مصلحت خیز کاموں میں سے تھی۔ اس میں کوئی بھی چیز سبب اختلاف تھی ہی نہیں ۔ ٭ شہرستانی کو حدیث اور آثار صحابہ و تابعین کا کوئی علم وتجربہ نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ شہرستانی نے اپنی اس کتاب میں وہ اختلافات بھی نقل کئے ہیں جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین نقل کیے جاتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود اس نے اصول میں صحابہ و تابعین اور ائمہ اہل اسلام کا مذہب نقل نہیں کیا۔ اس لیے کہ یہ اور اس جیسے دوسرے لوگ اصل میں اس چیز کی معرفت ہی نہیں رکھتے۔ اوروہی چیز نقل کردیتے ہیں جسے کتب مقالات میں پاتے ہیں ۔اور ان کتابوں میں بہت سارے ایسے جھوٹ پائے جاتے ہیں جیسا کہ تاریخ کی کتابوں میں جھوٹ پایا جاتاہے۔ ٭ لیکن افتراء پرداز یہ گمان کرتے ہیں کہ: اس لشکر میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہمابھی تھے۔ اور ان کو اس لشکر میں نکالنے کا مقصد یہ تھا تاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خلافت کے مسئلہ پر اختلاف نہ کرسکیں ۔بلاشک و شبہ یہ جھوٹ اور بہتان وہی شخص گھڑسکتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال سے سب سے بڑا جاہل ہو۔اور جان بوجھ کر سب لوگوں سے بڑھ کر جھوٹ بولنے والا ہو۔ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مرض وفات کے تمام ایام میں [ نمازیں پڑھانے کے لیے امام مقرر کر رکھا تھا]؛آپ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔ حالانکہ اس وقت سبھی لوگ موجود ہوا کرتے تھے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں پر کسی بھی انسان کو والی بنادیتے تو لوگ ضرور آپ کی اطاعت کرتے۔مہاجرین و انصار اس انسان سے لڑ پڑتے تھے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات میں اختلاف کرتا ہو۔یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے شروع سے آخر تک اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کی تھی۔ ٭ اور اگرر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نمازیں پڑھانے کے لیے امام بناتے تو کسی میں مجال نہیں تھی کہ اسے رد کر سکے ۔ اور اگر حج میں آپ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اورباقی لوگوں پر امیر بنانا چاہتے تو پھر بھی کسی میں اختلاف یا رد کرنے کی جرأت نہیں تھی۔ اور ایسے ہی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے یہ فرمادیتے : یہ میرے بعد تمہارا امیر اور امام ہے ۔تو کیا کو ئی آپ کی بات کو رد کرسکتا تھا؟ ٭ آپ کے ساتھ مہاجرین و انصار مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ یہ سبھی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا دم
Flag Counter