Maktaba Wahhabi

618 - 702
اتفاق تھا۔ اور سبھی آپ کے قاتل کو کرنا چاہتے تھے۔ حضرت ابوبکر و عمر کی بات ہی کچھ اور ہے۔ ٭ یہی حال اس فتنہ کا بھی ہے جو یزید اور اہل مدینہ کے مابین پیش آیا جیسے فتنہ حرہ کہا جاتا ہے۔ بیشک یہ بعض اہل مدینہ کی طرف سے ہوا تھا کہ وہ حاکم وقت بنو امیہ اور یزید کے ساتھیوں سے الجھ پڑے تھے۔ اس میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی کوئی بات ہی نہیں تھی۔ بلکہ اہل مدینہ اور اہل شام تمام لوگ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی ولایت و خلافت پر متفق تھے۔ ٭ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب کوفہ کی طرف نکلے تو آپ یزید کی جگہ خلافت کے طلب گار تھے۔ ان کی جنگ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکی خلافت کی وجہ سے نہیں تھی۔ یہی حال ان لوگوں کا بھی تھا جنہوں نے آپ کو قتل کردیا۔اور جس وقت آپ کو قتل کیا گیا اس وقت آپ ولایت کے طلب گار بھی نہیں رہے تھے۔ اور نہ ہی آپ کے ساتھ موجود اہل لشکر آپ کی خلافت کی وجہ سے لڑ رہے تھے۔ اپنی اس رائے سے آپ نے رجوع کر لیا تھا۔ اور آپ نے یہ پیشکش کی تھی کہ انہیں ان کے چچا زاد یزید کے پاس جانے دیا جائے ۔ یا پھر انہیں اپنے گھر کی طرف مدینہ واپس جانے دیا جائے۔ یا پھر انہیں کسی محاذ پر جانے دیا جائے۔ مگر ان ظالم لوگوں نے ان تین میں سے آپ کا ایک مطالبہ بھی تسلیم نہ کیا۔ بلکہ آپ سے گرفتاری پیش کرنے کو کہا۔اور ایسا بھی نہیں تھا کہ آپ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت پر لڑنے کی وجہ سے قتل کیا گیا ہو۔ بلکہ آپ اس حال میں شہید ہوئے کہ آپ اپنی جان کا دفاع کرر ہے تھا کہ انہیں گرفتار کرکے ان پر ظلم نہ کیا جائے۔ آپ کے بھائی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ بہت بڑا لشکر تھا مگر اس کے باوجود آپ نے تنازل اختیار کیا اور معاملہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کردیا۔ صحیح میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘ ٭ پھر جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو آپ کا انتقام لینے کے دعویدار کھڑے جیسا کہ مختار بن ابو عبید ثقفی ۔ انہوں نے عبیداللہ بن زیاد کو قتل کیا۔ اور جب مصعب بن زبیر کوفہ آئے تو آپ نے مختار کو قتل کردیا اس لیے کہ اس نے نبی ہونے کا جھوٹا دعوی کردیا تھا۔ صحیح مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ثقیف میں ایک جھوٹا اور ایک خونخوار ہوگا۔‘‘ ٭ ان میں سے کذاب جس کانام مختار بن عبید ثقفی رکھاگیا تھا حالانکہ وہ مختار نہیں تھا۔اور خونخوار حجاج بن یوسف ثقفی تھا۔ اس کے زمانے میں جو فتنہ پیش آیا وہ ابن اشعث کا فتنہ تھا۔ اس نے ان کے خلاف خروج کیا۔ اس کے ساتھ قرآء کی ایک جماعت تھی۔یہ سب اس کے ظلم اور سختی کی وجہ سے ہوا تھا۔ ٭ ان میں سے ایک واقعہ بھی حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کی وجہ سے نہیں ہوا تھا۔ بلکہ ان تمام کا حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت پر اتفاق تھا۔ یہ تمام جھگڑا سلطان وقت کی ولایت پر تھا۔ جب ان کے مقابل ایسے لوگ آجاتے
Flag Counter