Maktaba Wahhabi

620 - 702
اسماعیل بن جعفر کی طرف منسوب کرتے ہیں ‘ ان کا معاملہ اتنا کھلا ہوا اور واضح ہے کہ کسی بھی مسلمان پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مسلمان۔جوکہ اہل ایمان ہیں ۔ بشمول اہل سنہ واہل شیعہ ان لوگوں سے برأت کا اظہار کرتے ہیں ۔زیدیہ اور امامیہ انہیں کافر قرار دیتے ہیں ؛اور ان سے بیزاری کااظہار کرتے ہیں ۔اگرچہ اسماعیلیہ ملاحدہ خود کو ان کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ لیکن اسماعیلیہ خود یہود و نصاری سے بڑے کافر ہیں ۔جیسا کہ ابن الصباح کافر ‘ جس نے ان لوگوں پر چھری چلانا شروع کی تھی۔ ٭ ابو سعید الجنابی کے پیروکاران بحرین کے قرامطی شیعہ ان سے بھی برے ہیں ۔اس لیے کہ یہ لوگ تو بالکل اسلام کا نام بھی نہیں لیتے تھے۔ بلکہ ان لوگوں نے [ بیت اللہ میں ]حجاج کرام کو قتل کیا ؛ اورحجر اسود اکھاڑ کر لے گئے۔ ٭ یہ ان جنگوں کے واقعات ہیں جو اہل اسلام کے مابین پیش آئے۔ ان میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہے جو کہ امامت کے قاعدہ پر اختلاف کی وجہ سے پیش آیا ہو؛ جیسا کہ رافضی شیعہ کا دعوی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض شہروں میں خروج کرنے والے خوارج نے اپنی ذات کے لیے امامت کا دعوی کیا تھا۔ اور ان کے ساتھ لڑنے والے لوگ بھی تھے۔ سو یہ بھی اہل بوادی ‘ پہاڑی اور چھوٹے شہروں میں بسنے والے روافض کی جنس سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ ایک بہت چھوٹی سی جماعت تھی؛ جن کی عام جماعت مسلمین کے سامنے کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ان کے پاس اتنی قوت و طاقت نہیں تھی کہ مسلمانوں پر اپنی تلوار آویزاں کرسکیں ۔ تاکہ کسی کہنے والے کو یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ امت میں واقع ہونے والا سب سے بڑا اختلاف مسئلہ امامت کی وجہ سے تھا۔ یا پھر کوئی یہ کہہ سکے کہ : اسلام میں ایسے تلوار کسی چیز پر نہیں سونتی گئی جیسے ہر زمانہ میں امامت پر تلوار سونتی گئی۔ ٭ اگریہ بات کہنے والے کی مراد یہ ہے کہ : ’’لوگوں کے مابین مسئلہ امامت کی وجہ سے لڑائیاں پیش آتی رہیں ؛ جو کہ اس زمانے میں ایک شخص کی ولایت سے عبارت تھی۔ سو لوگوں کا ایک گروہ امام کے ساتھ مل کر لڑتا تھا اور دوسرا گروہ امام کے خلاف بغاوت کرتا تھا۔‘‘تو پھر آگاہ رہنا چاہیے کہ اہل سنت اور شیعہ دونوں کے مذہب میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ جب ایک نبی اور ایک دین پر ایمان رکھنے والے لوگ آپس میں لڑ پڑتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک گروہ کے پاس ایک ایسا آدمی ضرور ہونا چاہیے جسے وہ آگے بڑھائیں اور اپنا متولی بنائیں ۔ تو پھر ان میں سے ہر گروہ اپنے متعین کردہ امیر یا بڑے کی سرکردگی میں لڑسکتا ہے۔ ٭ لیکن ان لوگوں کی لڑائی کسی دینی قاعدہ کی وجہ سے نہیں تھی۔نہ ہی کسی کا یہ دعوی تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت نص سے ثابت ہے ؛ اورنہ ہی کوئی خلفاء ثلاثہ کی خلافت و امامت کو باطل کہتا تھا۔بلکہ ان کے اکثر لوگ خلفاء ثلاثہ کی خلافت و امامت کے معترف تھے۔ ٭ پھر یہ بھی واضح ہوچکا کہ حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے دور میں صحابہ کرام کے مابین کوئی جنگ نہیں ہوئی؛ تو پتہ چلا کہ ان حضرات کے عہد ِ خلافت میں کسی پر کوئی تلوار مسلط نہیں تھی۔یہ تلوار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلط
Flag Counter