Maktaba Wahhabi

627 - 702
سے ثابت ہے جسے اہل علم نے نقل کیا ہے ۔ اور ایسے مسائل میں بحث و مناظرہ کرنے سے لوگوں کو فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے ۔ یہ ایک امر کلّی میں اختلاف ہے جو اس لائق ہے کہ اس میں مناظرہ کیا جائے۔ ٭ جب کہ یہ امور ایسے ہیں کہ ان کی زیادہ سے زیادہ حقیقت ان کے جزئی امور ہونے پر ختم ہوتی ہے۔ انہیں ایسے اختلافی امور قرار نہیں دیا جاسکتا جن میں لوگ مناظرے کرتے پھریں ۔ ٭ اس کے باوجود مصنف نے جو کچھ بیان کیا ہے ‘ اس میں بہت زیادہ جھوٹ ہے۔ ان ہی میں سے ایک معاملہ حکم بن امیہ کا بھی ہے۔یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھگادیا تھا۔ اور لوگ اسے راندہء رسول کہا کرتے تھے۔ اورآپ نے حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہماکے پاس ان کی خلافت کے ایام اس کے لیے سفارش کی تھی؛ مگر انہوں نے یہ بات نہیں مانی۔بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس کی جگہ سے چالیس فرسخ تک یمن کے اندر بھگادیاتھا ۔ ہم پوچھتے ہیں : یہ واقعہ کس نے نقل کیا ہے؟ اس کی سند کہاں ہے؟ اور حکم کب یمن گیا؟ اورآپ کے دعوی کے مطابق جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طائف میں چھوڑ دیا تھا تو پھر کس سبب کی بنیاد پر اسے یمن کی طرف بھگایا گیا ؟حالانکہ طائف مکہ اور مدینہ سے زیادہ قریب تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مکہ و مدینہ کے قریب برقرار رکھا تھا تو پھر کیونکر اسے یمن بھگایا گیا ؟ ٭ بہت سارے اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ حکم کی جلاوطنی کا قصہ باطل ہے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طائف کی طرف جلاوطن نہیں کیا تھا بلکہ وہ خود طائف چلا گیا تھا۔ اور بعض نے کہا ہے کہ : اسے نکالا گیا تھا۔ مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی اس واقعہ کی کوئی صحیح سند اور کیفیت ذکر نہیں کی۔ ٭ پس اس تقدیر کی بنا پر شریعت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے جلا وطنی واجب ہوتی ہو وہ دائمی جلا وطنی کی مستحق ہو۔ بلکہ کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جس کا کرنے والا جلا وطنی کا مستحق ہو؛مگر اس کے بعد اس کے لیے وطن واپس ہونا ہوتا ہے۔ پس جلاوطنی یا تو مؤقت ہوتی ہے ؛ جیسے کنوارے زانی کو جمہور علماء کے نزدیک [کوڑے لگانے کے ساتھ ساتھ ]ایک سال کے لیے جلاوطن کیا جائے۔ یہ بھی سال گزرنے کے بعد واپس آجائے گا۔ اور پھر مطلق جلا وطنی ہوتی ہے جیسا کہ مخنث کے لیے۔ یہ نفی اس کی توبہ کرنے تک کے لیے ہے۔ ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شرابی کو بطور تعزیر جلا وطن کیا تھا۔ ٭ پس درایں صورت یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ: حکم کاوہ گناہ جس کی وجہ سے اسے جلا وطن کیا گیا تھا سترہ سال کے طویل عرصہ میں اس نے اس گناہ سے توبہ نہ کی ہوگی۔اور جب اتنا لمبا عرصہ جلاوطنی گزارنے کے ساتھ ساتھ وہ توبہ بھی کر لے تو اب جائز ہے کہ وہ وطن واپس لوٹ آئے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین افراد کے ساتھ پچاس رات تک کے لیے قطع تعلقی کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور مسلمانوں نے ان سے بات چیت شروع کی ۔
Flag Counter