Maktaba Wahhabi

629 - 702
٭ ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بنو امیہ سے محبت کرتے تھے اور ان سے موالات رکھتے اور انہیں بہت زیادہ مال دیا کرتے تھے۔ جو کچھ آپ نے اجتہاد مسائل میں کیا ہے وہ مسائل جن میں ان علما کرام نے کلام کیا ہے جن کی دنیا سے کوئی غرض نہیں تھی۔اور ہم اس بات کا بھی انکار نہیں کرتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اقارب کو مناصب تفویض کئے تھے۔آپ نے جنگیں لڑیں اور ان مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد قتل کی جو کہ نمازیں قائم کرتے زکا و ادا کرتے روزے رکھتے اور نمازیں پڑھتے تھے۔ لیکن ان میں سے کچھ ایسے تھے جن سے آپ کی جنگوں کو نص اور اجماع کی تائید حاصل تھی۔ اور کچھ ایسے تھے جن سے جنگیں ان اجتہادی مسائل میں سے تھیں جن میں ایسے علما نے کلام کیا ہے جن کی امور دنیا سے کوئی غرض نہیں تھی۔ ٭ خون کا معاملہ مال کی نسبت بہت ہی خطرناک معاملہ ہوتا ہے۔ اور وہ شر جو امت کے لوگوں کے خون میں پیدا ہوا وہ اس شر کی نسبت بہت ہی زیادہ اور خطرناک تھا جو لوگوں کو اموال دینے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ ٭ جب ہم حضرت علی سے دوستی رکھتے ہیں اور آپ سے محبت کرتے ہیں اور آپ کے جو فضائل کتاب و سنت میں وارد ہوئے ہیں انہیں بیان کرتے ہیں ۔ حالانکہ جو کچھ آپ کی خلافت میں پیش آیا ظاہری نظر میں وہ ان اعمال کی نسبت ملامت کے زیادہ قریب ہیں جو حضرت عثمان کے دور میں پیش آئے۔ اور حضرت عثمان کے دور میں اتنے اعمال خیر ہوئے جو کہ آپ کے دور میں نہ ہوسکے۔ تو ان کی وجہ سے ہم حضرت عثمان سے محبت اور دوستی رکھیں اور کتاب وسنت میں وارد آپ کے فضائل بیان کرتے اور ذکر خیر کرتے رہیں تو یہ زیادہ اولی ہے۔ اور ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ حضرت عثمان نے اموال میں جو کچھ کیا اس کے تین ماخذ ہیں : اوّل:....آپ ان اموال پر عامل تھے۔ اور عامل کو غنی ہونے کے باوجود تصرف کا حق حاصل ہوتا ہے۔ دوم :....آیت میں وارد قریبی رشتہ داروں سے مراد حاکم وقت کے قریبی رشتہ دار ہیں ۔ سوم:....آپ کا قبیلہ بہت بڑا قبیلہ تھا۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے قبیلہ کی طرح نہیں تھا۔ آپ کو حضرت ابوبکر و حضرت عمر کی نسبت بہت زیادہ ضرورت تھی کہ انہیں مال بھی دیا جائے اور مناصب بھی تفویض کئے جائیں ۔یہ بات حضرت عثمان کی طرف سے بطور دلیل کے نقل کی گئی ہے۔ ہم اس سے پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ہم رسول اللہ کے بعد کسی کے لیے بھی گناہوں سے معصوم ہونے کا دعوی نہیں کرتے چہ جائے کہ اس سے اجتہاد میں خطا نہ ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں : ﴿ وَالَّذِیْ جَائَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَo لَہُمْ مَا یَشَائُ وْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ ذٰلِکَ جَزَآئُ الْمُحْسِنِیْنَo لِیُکَفِّرَ اللّٰہُ عَنْہُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا وَیَجْزِیَہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ [الزمرِ: 33، 35] ’’اور وہ شخص جو سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ بچنے والے ہیں ۔ان کے لیے ان کے
Flag Counter