Maktaba Wahhabi

633 - 702
کہہ دیا کہ : ’’خلاصہ کلام یہ کہ حق علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اور علی حق کے ساتھ تھے۔‘‘ ٭ وہ ناقل جسے کسی سے کوئی غرض نہ ہو ‘ اسے چاہیے کہ جملہ امور کو امانت کے ساتھ نقل کرے ‘ اور ہر حق دار کو اس کا حق ادا کرے۔ مدعی کا صرف یہ دعوی کرلینا کہ :’’حق علی کے ساتھ تھا اور علی حق کے ساتھ تھے‘‘اور ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو چھوڑ کر صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ حق کو خاص کرنا ایسی بات ہے کہ شیعہ کے علاوہ کوئی بھی مسلمان یہ نہیں کہتا۔ ٭ شیعہ مصنف کے دعویٰ کا فساد اور بودا پن اس کے اس کلام سے ظاہرہوتا ہے کہ:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اتفاق اور ان کی بیعت منعقد ہونے کے بعد اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔‘‘ ٭ حالانکہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ: مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے آپ کی بیعت نہیں کی تھی۔ حتی کہ بہت سارے اہل مکہ و مدینہ جنہوں نے آپ کو دیکھا ہوا بھی تھا؛ انہوں نے بھی آپ کی بیعت نہیں کی تھی۔دور کے لوگوں کو تو چھوڑے جیسے کہ : اہل شام نے بالاتفاق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی تھی۔بہت سے اہل مصراور اہل مغرب؛ اہل عراق و وخراسان نے بھی اس میں بیعت شرکت نہیں کی تھی۔پھر یہ بات اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں نہیں کہی جاسکتی ؛ جن کی بیعت پر دو مسلمانوں نے بھی اختلاف نہیں کیا ؛ تو پھرحضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں کیسے کہی جاسکتی ہے ؟ [1] حضرت عائشہ اورطلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم کی معذرت اور رجوع کا ذکر کیے بغیر ان پر زبان طعن دراز کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔ اہل علم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ طلحہ وزبیر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے خلاف لڑنا نہیں چاہتا تھا بلکہ یہ لڑائی اچانک بپا ہو گئی تھی۔ایسے ہی اہل شا م کے ساتھ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگ نہیں لڑنا چاہتے تھے۔اور نہ ہی وہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑنا چاہتے تھے؛مگر ان کے ارادہ و اختیار کے بغیر یہ فتنہ پیدا ہوگیا۔ ٭ جنگ جمل فریقین کے ارادہ و اختیار کے بغیر بپا ہوئی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فریقین صلح پر آمادہ ہو گئے تھے اور بالاتفاق یہ طے پایا کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے انتقام لیا جائے۔ دوسری جانب قاتلین عثمان نے جیسے پہلی بار فتنہ پیدا کیا تھا ؛ ایسے ہی دوبارہ فتنہ پردازی پر اتر آئے اور انھوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کی جماعت پر دھاوا بول دیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رفقاء نے اسے حملہ سمجھ کر مدافعت کی سعی کی۔ ادھر قاتلوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فوج نے حملہ کردیا۔توحضرت علی رضی اللہ عنہ نے مدافعت کی کوشش کی؛ اس اعتبار سے
Flag Counter