Maktaba Wahhabi

648 - 702
کرتی ہے جس کا نتیجہ فتنہ و فساداور قتل وغیرہ کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔اس لیے ایک امام معصوم کے متعین کرنے کی ضرورت لاحق ہوتی ہے جو ان کو ظلم و فساد اور سرکشی سے روکے۔اور ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوششوں سے منع کرے۔مظلوم کوظالم سے انصاف دلائے۔ اور حق دار کو اس کا حق پہنچائے ۔اس امام سے سہو و خطاء اور گناہ کا صادر ہونا ممکن نہ ہو ‘ورنہ ایک اور امام کی ضرورت پڑے گی ۔ اس لیے کہ امام کو اس ضرورت کے پیش نظر نصب کیا گیا تھا کہ امت سے خطاء کا صدور ممکن ہے۔ اگر امام سے بھی خطاء سرزد ہو سکتی ہو تو کسی اور امام کی ضرورت پڑے گی۔ اگر وہ امام خطاء سے معصوم ہوا تو پھر اس کی امامت درست ہے ورنہ ایک اور امام نصب کرنا پڑے گا، اور اس طرح تسلسل لازم لائے گا ۔ دوسرا مقدمہ :....صاف ظاہر ہے کہ ابوبکر و عمر وعثمان [ رضی اللہ عنہم ]بالاتفاق معصوم نہ تھے جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ معصوم تھے لہٰذا وہی امام ہوں گے۔‘‘ [انتہی کلام الرافضی ] [جواب] : ہم کہتے ہیں کہ یہ دونوں مقدمات باطل ہیں ۔[تفصیلی جواب اس طرح سے ہے :] [رافضی کا شبہ ۱]پہلا مقدمہ : رافضی کا کہنا کہ :ایک امام معصوم کی ضرورت لاحق ہوتی ہے جو ان کو ظلم و فساد اور سرکشی سے روکے اور ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی کوششوں سے منع کرے۔مظلوم کوظالم سے انصاف دلائے اور حق دار کو اس کا حق پہنچائے ۔اس امام سے سہو و خطاء اور گناہ کا صادر ہونا ممکن نہ ہو ۔‘‘ [ردشبہ ]: ہم کہتے ہیں :اگر اس مقدمہ کی صحت کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو معصوم صرف رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہوتی ہے؛ اور اطاعت بھی آپ ہی کی ہر انسان پر اور ہر زمانے میں واجب ہوتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر و احکام کا علم اس امت کو بھر پور طریقہ سے حاصل ہے؛ بہ نسبت امام غائب یا امام منتظر کے اوامر و نواہی اوراحکام کے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام معصوم ہیں ‘ اور امت آپ کے اوامر و نواہی کوجانتی ہے۔جب کہ ان کے معصوم کا معاملہ ایک غائب منتظر پر جاکر رک جاتا ہے۔ جس کو اگر معصوم تسلیم بھی کرلیا جائے تو امت میں سے کسی ایک کو اس کے کسی حکم یا نہی کا کوئی علم نہیں ۔بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رعیت بھی آپ کے اوامر و نواہی کو ایسے نہیں جانتی تھی جس طرح یہ امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر و نواہی کو جانتی تھی۔ بلکہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کے احکام و اوامر و نواہی کا اتنا علم ہے جس کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ نے انہیں کسی دوسرے امام سے بے نیاز کردیا ہے۔ اور انہیں دوسرے کسی ایسے متولی کی کوئی حاجت نہیں جو انہیں ان کے دین کی پہچان کرائے۔اور نہ ہی انہیں اس شریعت پر عمل کرنے کے لیے کسی کے تعاون کی کوئی ضرورت ہے ۔اگر امام کے وجود کو علی التقدیر تسلیم بھی کرلیا جائے تو پھر بھی [اہل سنت ]اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر و نواہی کو امام منتظر کی رعیت کے کسی بھی فرد سے بڑھ کر جانتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا کسی ایک بھی ایسے کو مسلمانوں پر متولی نہیں بنایا جس کے لیے عصمت کا دعوی کیا گیا ہو۔ یہ بات قطعی طور سے معلوم ہے کہ آپ کی رعیت یمن و خراسان اور دیگر بلاد اسلامیہ میں تھے۔ اور ان میں ایسے بھی تھے جن کو شرعی اوامر و نواہی کا کچھ پتہ نہ تھا۔ بلکہ آپ کے متعین کردہ نائبین بھی ایسے امور میں بھی تصرف کرتے
Flag Counter