Maktaba Wahhabi

650 - 702
اور ایسافلاں گروہ کے لیے۔حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہو کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ فقیر ہے ؛ وہ لوگ بھی اپنے افلاس میں معروف ہیں ۔ جس کا معدوم ہونا معلوم ہو ‘ اس کے طلب کرنے میں کون سا فائدہ ہے ؟ اور جس سے حقیقت میں کوئی فائدہ حاصل نہ ہوسکتا ہو ‘ اس کی اتباع کیسی ؟حالانکہ امام کی ضرورت دو چیزوں کے لیے ہوتی ہے : یا تو علم کے لیے ‘ تاکہ اس کی تعلیم و تبلیغ کی جاسکے ۔ یا پھر عمل کے لیے تاکہ وہ اپنی قوت و شوکت کی بنا پر[اس علم پر ] عمل کے لیے لوگوں کی مدد کرسکے۔ جب کہ اس امام سے نہ پہلا فائدہ حاصل ہوا اور نہ ہی دوسرا ۔ بلکہ شیعہ کے پاس جو علم ہے ‘ وہ اس [امام غائب ] سے پہلے کے ائمہ کے اقوا ل واعمال سے منقول ہے۔ اگر اس میں کوئی چیزمسلمانوں کے موافق ہوتی ہے تو اس کے لیے مسلمانوں سے مدد حاصل کرتے ہیں ‘ اور اگر ایسا نہ ہو تو کفار ‘ ملحدین اور ان جیسے لوگوں سے مدد حاصل کرتے ہیں ۔ یہ لوگ عمل کی دنیا میں سب سے زیادہ عاجز ہیں ۔اور علم کے میدان میں سب لوگوں سے بڑھ کر جاہل ہیں ۔حالانکہ وہ اس امام معصوم کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں جس سے مقصود علم و قدرت ہے۔مگر نہ ہی انہیں علم حاصل ہوا اورنہ ہی قدرت۔ تو پتہ چلا کہ ان کے دعوی کی کوئی حقیقت نہیں ۔ مزید برآں کہ امت کو ان بارہ ائمہ میں سے کسی ایک سے بھی امامت کے پورے مقاصد حاصل نہیں ہوئے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ جتنے بھی ائمہ ہیں ‘لوگ ان کے علم سے ایسے ہی مستفید ہوئے ہیں جیسے ان کے ہم مثل دوسرے علماء سے۔ حضرت علی بن حسین ‘ ان کے بیٹے ابو جعفر ؛ ان کے بیٹے جعفر بن محمد لوگوں کو ایسے ہی اللہ تعالیٰ کادیا ہوا علم سکھاتے؛ جس طرح ان کے زمانے کے علماء لوگوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔ اور ان کے زمانے میں ایسے لوگ بھی تھے جوان سے بڑھ کر عالم اور امت کے لیے زیادہ فائدہ مند تھے۔ یہ اہل علم کے ہاں معروف ہے۔ اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ یہ ائمہ اپنے زمانے میں سب سے بڑے عالم اور دیندار تھے۔ تو فقط ان اہل علم و دین سے وہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا جو صاحب قوت و شوکت حکمران سے ہوتا ہے؛ وہ لوگوں پر حق کی پیروی کو لازم ٹھہراتا ہے اور برائی وباطل سے بزور بازو منع کرتا ہے ۔ان تین ائمہ کے بعد آنے والوں کے پاس اتنا علم نہیں تھا جس سے امت فائدہ حاصل کرے۔اور نہ ہی انہیں قوت و شوکت حاصل تھی کہ وہ[نیک اعمال و نفاذ احکام شریعت میں ] امت کی مدد کرتے ۔بلکہ ان جیسے دوسرے لوگوں یعنی بنی ہاشم کو مقام و مرتبہ اور منزلت حاصل تھی۔ اور انہیں دین اسلام کے ضروری مسائل کی معرفت بھی حاصل تھی ۔جیسے کہ بہت سارے عام مسلمان بھی یہ مسائل جانتے تھے۔ البتہ وہ علوم جو ماہرین اہل علم کے ساتھ خاص ہیں ‘ ان میں ان کی کوئی شہرت نہیں تھی۔ اس لیے اہل علم نے ان سے کوئی روایت نقل نہیں کی جیسے کہ ان سے پہلے کے تین ائمہ سے نقل کرتے آئے ہیں ۔ اگر ان کے پاس کوئی نفع بخش علم ہوتا تو لوگ ان سے وہ علم حاصل کرتے۔ اس لیے کہ طالب علم کو اپنے مقصد کی معرفت ہوتی ہے۔
Flag Counter